ہندوستان: لڑکی سے بدتمیزی پر فسادات، کرفیونافذ
رانچی: ہندوستان کی ریاست جھار کھنڈ میں مسلمان لڑکیوں سے ہندو لڑکوں کی مبینہ بد تمیزی کے بعد فسادات شروع ہو گئے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ریاست جھار کھنڈ میں جمشید پور کے علاقے مانگو میں دو روز قبل سلمان خان کی فلم 'بجرنگی بھائی جان' دیکھ کر باہر نکلنے والی 3 لڑکیوں سے اوباش نوجوانوں نے اسکارف چھیننے کی کوشش کی۔
تینوں نوجوان موٹر سائیکل پر سوار تھے جنہوں نے لڑکیوں سے بد تمیزی کی کوشش کی جبکہ وہاں موجود افراد کی مداخلت کی اور اوباش لڑکوں کو منع کیا جس پر زبانی تکرار جھگڑے میں تبدیل ہو گئی اور اسی دوران ان لڑکوں کے حامی مزید افراد آ گئے جس کے بعد تصادم شروع ہو گیا۔
تصادم کے دوران دونوں جانب سے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا گیا جبکہ ہوئی فائرنگ بھی کی گئی۔
مقامی افراد کے مطابق کئی مسلمانوں کی جمشید پور کی مانگو مارکیٹ میں کپڑوں کی دکانوں کو بھی نذر آتش کر دیا گیا ہے لیکن سرکاری ذرائع کے حوالے اس پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
ہندوستان کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جمشید پور میں دو روز سے جاری فسادات کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
اس علاقے میں آخری بار کرفیو 23 سال قبل 1992 میں فسادات کے بعد لگایا گیا تھا۔
حالیہ فسادات کے دوران دو افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے جبکہ 130 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سمیت کئی سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
حالات کنٹرول کرنے کے لیے سینٹرل ریزرو پولیس کی مزید 15 کمپنیاں جمشید پور میں تعینات کی گئی ہیں۔
پولیس کے مطابق اب تک 6 ایف آئی آرز کا اندراج کیا جا چکا ہے جن میں 150 افراد نامزد ہیں جبکہ اب تک 103 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ہندوستان کے ایک اور خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ویشوا ہندو پریشد نے جمشید پور میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
بدھ کے روز (آج) ہونے والی ہڑتال میں بھی کئی گاڑیوں اور دیگر املاک کو نذر آتش کیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے اکثریتی علاقے منشی محلہ میں ایک مسجد پر بھی پتھراؤ کیا گیا، مقامی افراد کے مطابق پتھراؤ کرنے والے ویشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکن تھے۔
دوسری جانب ہندو مسلم اور عیسائی کمیونٹی کی جانب سے مشترکہ ریلی کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں فسادات کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔
ریاست کے وزیر اعلیٰ رگھوبر داس نے سارے واقع کی تحقیقات کے احکامات جاری کیے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں ہندوستان میں خواتین کے ساتھ زیادتی اور بد تمیزی کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اسی طرح اقلیتوں پر بھی حملوں میں اضافہ ہوا ہے، قبل ازیں عیسائیوں کے ساتھ زیادتیوں اور دارالحکومت نئی دہلی میں چرچز پر حملوں کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔یاد رہے کہ موجودہ وزیر اعظم نرنیدر مودی پر ان کے گجرات میں وزیر اعلی ہونے کے دور میں مسلمانوں پر حملوں میں ملوث افراد کی سرپرستی کے الزامات تھے مگر بعد ازاں عدالت سے بری ہو گئے تھے۔