نقطہ نظر

صدر اوباما سے سیکھنے کی 5 عادات

معمولی نظر آنے والی سادہ سی عادات ہی ہیں جنہوں نے امریکی صدر کو ایک منفرد پہچان دی ہے۔

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر پر دنیا بھر کی نظریں مرکوز ہوتی ہیں، اور اس کی شخصیت کے ہر پہلو کو بڑی گہرائی سے پرکھا جاتا ہے۔ موجودہ امریکی صدر اوباما، ریاست ہائے متحدہ امریکا کے 44 ویں اور پہلے سیاہ فام امریکی صدر ہیں۔ صدر اوباما کی شخصیت میں ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی دلچسپی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تاہم ان کی پانچ عادات عام لوگوں کے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث ہیں۔

کتب بینی

مصروفیت بھری زندگی میں سے مطالعے کے لیے وقت نکالنا یقیناً ایک مشکل کام ہے، تاہم موجودہ امریکی صدر اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود مختلف کتابیں پڑھنے کا وقت ضرور نکل لیتے ہیں۔

اوباما کا یہ شوق زمانہ طالب علمی سے رہا ہے، اور ان کے علمی رجحان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہیں ہارورڈ یونیورسٹی کے جریدے کا ایڈیٹر بھی مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے صدر اوباما اس وقت ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گئے، جب ان کی دوران خریداری لی گئی تصویر میں کتابیں بھی شامل تھیں۔ بعض ذرائع کے مطابق وہ اب بھی ہفتے میں ایک کتاب ضرور پڑھتے ہیں۔ اتنے اہم ملک کا اتنا مصروف صدر کتابیں پڑھنے کے لیے وقت نکالے، نہ صرف حیرانی کی بات ہے، بلکہ اس میں ان تمام لوگوں کے لیے سبق ہے جو مصروفیت کا بہانہ کر کے کتب بینی سے دور بھاگتے ہیں۔ صدر اوباما کی اس عادت کا موازانہ اپنے رہنماؤں سے کرنے کا خیال بھی فضول ہے۔

جدوجہد

موجودہ امریکی صدر کی زندگی سے ایک اور اہم نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے، اور وہ ہے محنت، قابلیت، اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اپنے مقصد میں کامیابی کا حصول۔ ایک افریقی باپ اور امریکی ماں کی اولاد ہونے کے ساتھ ساتھ صدر اوباما کا بچپن بہت خوشگوار نہ تھا۔ ان کے والدین کے درمیان طلاق واقع ہوگئی، اور کچھ عرصہ بعد ان کی والدہ نے دوسری شادی کرلی۔ کچھ عرصہ اپنے سوتیلے والد کے ساتھ انڈونیشیا میں گزارنے کے بعد ان کو واپس امریکا بھیج دیا گیا۔

یہاں پر بھی مشکلات کا سامنے کرنے کے باوجود اوباما نے حوصلہ نہ ہارا اور اپنی تعلیم کا سلسلہ پہلے کیلی فورنیا اور پھر شکاگو میں جاری رکھا۔ بعد ازاں اپنی لیاقت کے سبب ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔ صدارتی نامزدگی کے لیے ہلری کلنٹن جیسی مضبوط امیدوار کو شکست دی، اور ان تھک محنت اور جدوجہد کے سبب ایک سیاہ فام امریکی نے اپنے ملک کے صدر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

فیملی

صدر اوباما کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو ان کی اپنے خاندان کے حوالے سے شہرت ہے۔ وہ نہ صرف ایک ذمہ دار شوہر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، بلکہ دو بیٹیوں کے باپ کی حیثیت سے بھی ان کی اچھی شہرت ہے۔ اپنی بیٹیوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں شرکت کے حوالے سے بھی وہ وقت نکالنا نہیں بھولتے۔ اپنی بڑی بیٹی کے یونیورسٹی میں داخلے کے سلسلے میں بھی خاطر خواہ دوڑ دھوپ کی۔

ورزش

6 فٹ اور 1 انچ قد کے ساتھ ساتھ جو چیز امریکی صدر کو ممتاز بناتی ہے، وہ ہے ان کی جسمانی فٹنس۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے اس بات کو کافی اجاگر کیا ہے، کہ گزشتہ سات آٹھ سالوں میں صدر اوباما نے اپنی جسمانی فٹنس کا خوب خیال رکھا، اور پہلی دفعہ صدر بننے سے لے کر جب ان کا وزن تقریباً 88 کلو تھا، اب تک سات سال گزارنے کے بعد بھی تقریباً اتنا ہی ہے۔ باسکٹ بال کے کھیل میں دلچسپی رکھنے والے صدر اوباما کی اس فٹنس کا ایک راز غالباً یہ بھی ہے کہ وہ روزانہ تقریباً پانچ میل دوڑ لگاتے ہیں۔

خوش اخلاقی

موجودہ امریکی صدر کی شخصیت کا ایک اور قابل غور پہلو ان کی خوش اخلاقی ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ سربراہانِ مملکت نہ صرف سنجیدہ مزاج کے حامل ہوتے ہیں، بلکہ شاذ و نادر ہی خوش گوار موڈ میں نظر آتے ہیں، لیکن امریکی صدر اوباما کے ضمن میں ایسا نہیں۔

نہ صرف یہ کہ وہ اکثر ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں، بلکہ جہاں بھی ممکن ہو سکے لوگوں کو ہنسانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ امریکی صدر کے برعکس ہمارے لیڈر نہ صرف یہ کہ ظاہری طور پر سنجیدہ نظر آتے ہیں، بلکہ لوگوں کو اپنی حسِ مزاح سے متاثر کرنے کا فن بھی تقریباً ناپید ہے۔ قوم کے رہنما اپنے لوگوں کی امیدوں کا مرکز ہوتے ہیں، اور اگر ان کو اپنے لیڈروں کی شکل پر ہی امید، خوشی، اور اعتماد نظر نہ آ سکے، تو پھر ان کا اپنا بھی مایوس، فکرمند، اور پریشان نظر آنا کچھ اچھنبے کی بات نہیں۔

` `

اوپر دیے گئے پانچ اوصاف نہ صرف یہ کہ بنیادی نوعیت کے ہیں، بلکہ ان کا تعلق اعلیٰ انسانی اقدار سے بھی ہے اور ان کو اپنانا بھی ہرگز مشکل نہیں۔ یہ وہ معمولی نظر آنے والی سادہ سی عادات ہیں، جو کسی بھی شخص کو بالکل منفرد بنا سکتی ہیں، اور ان کو اپنا کر آپ نہ صرف اپنی زندگی میں، بلکہ اپنے کام میں بھی بہتری محسوس کر سکتے ہیں۔

ابنِ اظہر

لکھاری اچھے بھلے کمپیوٹر انجینیئر تھے، پھر نجانے کیا سوجھی کہ لکھنا شروع کردیا، وہ بھی اردو میں۔ کوئی اور پڑھے نہ پڑھے، یہ اپنی تحاریر ضرور پڑھتے ہیں۔ رابطہ کرنا ہو یا نہ کرنا ہو، ای میل ایڈریس یہی ہے: ibn.e.azhar@gmail.com

اس کے علاوہ ٹوئٹر پر بھی پیچھا کیا جا سکتا ہے: ibneazhar@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔