حادثات دیکھنے کا جنون
کہتے ہیں کہ ایک صاحب نے اسٹیشن ماسٹر سے پوچھا، کہ بالفرض کبھی ایسی صورتحال درپیش ہو کہ بیک وقت دو ٹرینیں ایک ہی پٹری پر آمنے سامنے کی جانب سے آرہی ہوں، تو حادثے سے بچنے کے لیے آپ کیا تدبیر اختیار کریں گے؟
اسٹیشن ماسٹر نے کہا کہ فوراً کانٹا تبدیل کرتے ہوئے کسی ایک ٹرین کی پٹری تبدیل کرنے کی کوشش کروں گا۔ پوچھنے والے نے استفسار کیا کہ بالفرض ایسا بھی ممکن نہ ہوا، تو پھر؟ اسٹیشن ماسٹر نے دوسرا حل پیش کیا، پھر تیسرا، اور پھر چوتھا۔ سوال کرنے والے صاحب ہر حل میں کوئی حجت نکالتے اور اسے رد کردیتے۔ آخر تنگ آکر اسٹیشن ماسٹر نے کہا کہ میں دوڑ کر جاؤں گا اور اپنے بیٹے کو اسٹیشن پر لے آؤں گا۔ ان صاحب نے حیرت سے پوچھا کہ وہ کیا کرے گا۔ تو اسٹیشن ماسٹر کہنے لگے کہ وہ کرے گا تو کچھ نہیں، مگر اسے ریل گاڑیوں کا ایکسیڈنٹ دیکھنے کا بہت شوق ہے۔
یہ تو خیر ایک لطیفہ تھا، مگر غور سے دیکھیں، تو یہ لطیفہ نہیں بلکہ ایک المیہ ہے جو ہماری معاشرت اور طرز زندگی کا آئینہ ہے۔ مجموعی طور پر ہماری قوم اسٹیشن ماسٹر کے اس بیٹے سے کسی طور بھی مختلف نہیں، جسے ٹرینوں کا حادثہ دیکھنے کا شوق ہے۔ ہماری قوم کے شوق بھی کچھ اسی نوعیت کے ہیں، اور بدقسمتی سے ذہنی سطح بھی کسی طور اس بچے سے بلند نہیں۔ اس ذہنی سطح کے ثبوت اور کرشمے اکثر و بیشتر ہمیں دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔
ہماری قوم حادثات سے محظوظ ہونے کی اتنی رسیا ہے کہ سوشل میڈیا ایسی ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے۔ اگر کہیں کوئی حادثہ ہوگیا تو کوئی یہ ہمت تو نہیں کرے گا کہ کسی دم توڑتے شخص کو اٹھا کر ہسپتال ہی پہنچا دے، مگر یہ کوشش ہر فرد کرے گا کہ کسی طور اس کی آخری ہچکیاں ریکارڈ کرلے اور اسے فوراً سے پہلے فیس بک پر شئیر کر کے لائکس اور کمنٹس کا ڈھیر اکٹھا کرے۔
پڑھیے: سوشل میڈیا حقیقی رشتے ٹوٹنے کا سبب
کہیں آگ لگ جائے تو فائر بریگیڈ کو اطلاع دینے کا خیال تو شاید کسی کو بھی نہ آئے، ہاں البتہ جلتی ہوئی عمارت اور اس میں سے زندگی بچانے کے لیے چھلانگیں لگاتے لوگوں کو ہر اینگل سے موبائل کیمرے میں محفوظ کرنے میں لوگوں کا انہماک دیدنی ہوگا۔
پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو جب ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا گیا، یا حال ہی میں جب لاہور میں مشتعل ہجوم نے دو لوگوں کو زندہ جلا دیا، تو کس طرح لوگ ان کی ویڈیوز بنا رہے تھے اور تصاویر لے رہے تھے۔ کیا یہ کوئی تماشہ ہے جسے کیمرے میں تفریحِ طبع کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے؟
اور بعض لوگ تو ایسے عجیب ہیں کہ خود اپنے ہی ساتھ پیش آنے والے حادثات کی باقاعدہ تصاویر بنائیں یا بنوائیں گے، اور پھر بڑے فخر سے بتائیں گے 'آئی ایم سیف، بٹ مائی کار۔۔۔ :( '
ہم لوگوں میں شاید اس بات کا شعور اور احساس ہی ختم ہوچکا ہے کہ کس بات پر کس طرح کا ردعمل ظاہر کرنا ہے، خوشی کا اظہار کہاں اور کس طرح کرنا ہے، اور دکھ کے اظہار کے کیا طور طریقے ہیں۔
پچھلے دنوں کہیں سے اڑتی اڑتی خبر ملی کہ دو افراد گدھے کا گوشت تیار کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ انہیں تو خیر پولیس لے گئی، مگر اہل علاقہ نے اس مقام کو تفریح گاہ کی صورت دے ڈالی۔ ہر چند منٹ کے بعد پانچ سات کی ایک ٹولی جاتی دکھائی دیتی، اور ایک واپس پلٹتی۔ وہاں بھی صورتحال یہی تھی، اور فوٹو شوٹ ایسے جاری تھے جیسے یہ دامن کوہ یا پیر سوہاوہ قسم کا کوئی تفریحی مقام ہو۔ اور پھر یہ تمام کا تمام گند تصویروں اور ویڈیوز کی شکل میں فیس بک پر گردش کرنے لگا۔
اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب کوئی قوم زوال پذیر ہوتی ہے تو اس کے ہر ہر فعل سے اس کے زوال پذیر ہونے کے شواہد ملتے ہیں اور ہم بالکل الٹی ڈگر پر جس تیزی سے دوڑ رہے ہیں، ہمارے زوال پذیر ہونے میں تو کوئی شک ممکن نہیں۔ ہم یہ تک بھول چکے ہیں کہ کس بات پر ہمیں خوشی اور طمانیت کا اظہار کرنا ہے، اور کس المیے پر اپنے سر میں خاک ڈالنی اور سر پیٹنا ہے۔
ہمارے نزدیک ہر حادثے کی ایک قیمت ہے، اور یہ قیمت ہے ایک تصویر، چند کمنٹس، کچھ لائکس، اور شیئرز۔ یہ قیمت وصول کرتے ہوئے ہم یہ تک بھول جاتے ہیں، بلکہ بھول کیا جاتے ہیں اس بات سے اکثریت آگاہ ہی نہیں کہ اس قسم کی تصاویر اور ویڈیوز مختلف عمروں کے لوگوں کی نفسیات پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ فیس بک استعمال کرنے والے بچوں میں کس طرح ان شیئرنگز کی وجہ سے بے حسی کو فروغ مل رہا ہے اور کس طرح بڑی عمر کے لوگوں میں یہ احساسِ بے چینی پیدا کر رہی ہیں۔
مزید پڑھیے: ڈپریشن کی ایک وجہ فیس بک بھی
بسا اوقات شیئر کی جانے والی ویڈیوز اتنی ہولناک ہوتی ہیں کہ اگر مسلسل ایسی چیزیں دیکھی جائیں تو وحشت و بربریت کے جذبات میں بھی اضافہ ہی ہوگا، اور اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جس درجہ انتہا کو ہماری وحشت و بربریت اس وقت چھو رہی ہے، آج سے پہلے اس کا قیاس کرنا بھی ناممکن تھا۔
لیکن سماج میں ہو رہی ان تمام تبدیلیوں کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے ہم اپنی اسی ڈگر پر تیزی سے دوڑنے میں مصروف ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی کو کبھی بھی اس کی شعوری سطح سے بہتر کھلونا نہیں دینا چاہیے۔ جیسے کسی دس سال کے بچے کو اسپورٹس کار دینا اس کی اور دیگر کئی لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا باعث ہوگا، ایسے ہی ہماری قوم کی شعوری سطح اتنی ہی بلند ہے کہ ان کے لیے سوشل میڈیا بھی ایک کھلونا ہے، جہاں پر وہ کچھ بھی پوسٹ کر کے دوسرے کی نفسیات اور جذبات کو غیر شعوری طور پر نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔
میں قطعاً ایسا نہیں کہنا چاہتا کہ سوشل میڈیا کا استعمال ترک کر دیا جائے۔ ہاں میں اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ کم از کم اپنی ذہنی سطح کو اس درجہ بلند ضرور کریں کہ سوشل میڈیا اور ایسی ہی دیگر جدید اور دور رس نتائج کی حامل ٹیکنالوجیز کا استعمال ہمیں زیب دے اور یہ سماج میں کسی نہ کسی طرح بہتری لانے کا باعث بن سکیں، نہ کہ یہ معاشرے میں انتشار اور گراوٹ کو فروغ دینے کا سبب بنیں۔
ایسے اسباب کی پہلے ہی بہتات ہے، سو کیا ضروری ہے کہ یہ ذریعہ بھی اسی مقصد کے لیے وقف کر دیا جائے؟
ارشد علی افسانہ نگار ہیں، اور ان کے افسانے ہندوستان اور پاکستان کے کئی مؤقر رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔
ان سے فیس بک پر رابطہ کریں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔