'لوگ کیا کہیں گے؟'
یوں تو فلموں میں کئی طرح کی خوفناک مخلوقات دکھائی جاتی ہیں، لیکن پاکستان میں بھی ہمارے پاس ایسی کچھ مخلوقات ہیں جو کسی بھی مرد، عورت، اور بچے کے دل میں خوف بھر سکتی ہیں۔ یہ مخلوق "لوگ" ہیں، اور ان کا ہتھیار ان کی "باتیں"۔
ہمارے درمیان ایسا کون ہے جو لوگوں کی باتوں سے خوفزدہ نہ ہوا ہو؟
چاہے معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، سماجی ہو یا ذاتی، ہماری زندگیاں لوگوں کی باتوں کے خوف میں گزرتی ہیں۔ "لوگ کیا کہیں گے" کا سوال انسان کی ذاتی خواہشات پر سبقت لے جاتا ہے، یہاں تک کہ انسان اپنی خواہشات سے ہی سمجھوتہ کر لے۔
میری ایک کزن نے اپنی والدہ سے ایک دن کہا کہ وہ ایک ساز بجانا چاہتی ہے۔
جواب آیا: "بیٹا، لوگ کیا کہیں گے؟"، اور بس بات ختم۔
ہماری سماجی زندگی ایک دوسرے پر بہت زیادہ منحصر ہے، اور اس کے قائم رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے کی جانب سے افراد پر عائد کردہ ذمہ داریاں نبھائی جائیں، اسی لیے کئی بار سماجی مجبوریاں ذاتی خواہشات اور ضروریات کو دبا دیتی ہیں۔
مل جل کر رہنے کے اپنے فوائد ہیں۔ لیکن جن ضوابط کو ماننے کا ہمیں کہا جاتا ہے، وہ بسا اوقات بہت ہی فضول اور بے ضرورت معلوم ہوتے ہیں۔
آخر ایک لڑکی کے ساز بجانے سے معاشرے کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟ سوائے اس کے، کہ اسے زیادہ ذاتی آزادی حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جائے، جس کی وجہ سے وہ مستقبل میں شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر ڈالے، یا ایسے کریئر کا انتخاب کر لے جو خواتین نہیں اپناتیں۔
سادہ الفاظ میں شاید وہ "اچھے خاندان کی لڑکی" کا اپنا تشخص کھو دے، اس لیے اس کے دماغ میں بچپن سے ہی لوگوں کی باتوں کا خوف بٹھا دینا چاہیے۔
اگر بچے ہوشیار ہوں، اور سماجی طور پر قابلِ قبول شعبوں، جیسے میڈیکل، انجینیئرنگ وغیرہ کا انتخاب کر لیں، تو وہ 'لوگوں کی باتوں' سے بچ جاتے ہیں، جبکہ بزنس ایڈمنسٹریشن وغیرہ کا انتخاب کرنے پر باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔
اور جب نوکری مل جائے (سرکاری نوکری سب سے اچھی مانی جاتی ہے)، تو فوراً شادی کر لینے کا دباؤ بڑھتا جاتا ہے۔ لوگوں کی باتیں اس قدر بڑھ جاتی ہیں، کہ پھر انہیں نظرانداز کرنا باقی نہیں رہتا۔
اور یہ باتیں ہوتی کس قدر سخت نوعیت کی ہیں۔ جب میری ایک دوست کو جاب ملی، تو لوگوں نے اس کے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اس کے لیے ایک اچھا شوہر ڈھونڈیں، تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں۔
اور چھ ماہ کے بعد اس کے والد کو صاف صاف کہ دیا گیا کہ آیا وہ شادی میں تاخیر اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ وہ کمائی گھر لا رہی ہے۔
خواتین کو ان کی بڑھتی عمر، نوجوان لڑکوں کو ان کے گرتے بالوں، اور والدین کو ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں یاد دلانے والی یہ لوگوں کی باتیں صرف اس لیے ہوتی ہیں، تاکہ ہر شخص کو ایک پہلے سے تعین کردہ راستے پر رکھا جاسکے۔
بہو، داماد، ساس، اور سسر کے سانچے پہلے سے بنے ہوئے ہوتے ہیں، ہمیں صرف ان میں اتر کر اپنے آپ کو اس حساب سے ڈھالنا ہوتا ہے۔
امید ہوتی ہے کہ شادی کے بعد یہ باتیں ختم ہوجائیں گی، لیکن پھر میاں بیوی سے یہ پوچھا جانے لگتا ہے کہ بچے کب پیدا کریں گے۔ بچے ہونے ضروری ہیں، اور ابھی کے ابھی ہونے ضروری ہیں۔
ذاتی سطح پر زیادہ تر لوگ ان سانچوں سے باہر نکلنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، لیکن عموماً خود بھی ان لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا نہیں کرتے، جو مختلف انداز میں جینا چاہتے ہیں۔
'لوگ' ہم خود بھی ہوتے ہیں۔ جب ہمارے فیصلوں پر تنقید کی جائے تو ہم فوراً ہی پریشان ہوجاتے ہیں یا تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی سننے میں آئے کہ پڑوسی کے بیٹے نے آرٹسٹ بننے کا فیصلہ کیا ہے، یا خالہ کی بیٹی پیانو سیکھنا چاہتی ہے، تو ہم ان کے انتخاب اور ان کی اخلاقیات پر سوال اٹھانے لگتے ہیں۔
لوگوں کی باتوں کے خوف سے نکلنا آسان سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔ آپ کے بارے میں دباؤ صرف آپ پر ہی نہیں، آپ کے پیاروں پر بھی ڈالا جاتا ہے۔ اگر ہم معاشرے کی توقعات کے مطابق نہ جی پائیں، تو بہت جلد معاشرہ ہمیں دھتکار بھی دیتا ہے۔
اس دباؤ کو ختم صرف تب کیا جا سکتا ہے، جب ہم سب اپنے اپنے ذہن کھولیں، کہ ہر کوئی ایک ہی طرح کا کام نہیں کر سکتا۔ اپنا ذہن کھولیں، اور اس کی شروعات ایک 35 سالہ غیر شادی شدہ لڑکی کی عزت کر کے، اور ایک بے اولاد جوڑے کو قبول کر کے کریں۔
اثناء علی کتابوں سے محبت کرتی ہیں، اور فری لانس کالم نگار ہیں۔
ان سے asna.ali90@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔