کراچی کا امن کیسے واپس آ سکتا ہے؟
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور بلا کسی امتیاز و تفریق کے ہر فرد کو ایک بے لوث ماں بن کر اپنی آغوش میں چھپا لیتا ہے۔ ہر زبان، رنگ و نسل، مذہب و فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص یہاں آباد ہے، اور ہمارا کراچی ہر شخص کی روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ غیر ملکی سربراہان کراچی آیا کرتے، تو بغیر چھت والی گاڑیوں میں سفر کرتے، اور یہاں کے لوگوں سے سڑکوں پر ملتے۔ اب وہ حالات نہیں رہے۔ غیر ملکی سربراہان اب کراچی آتے ہی نہیں، بلکہ دارالحکومت سے ہی واپس لوٹ جاتے ہیں۔
کراچی کے بارے میں دنیا میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ شہر مکمل طور پر امن و امان سے عاری ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہاں یہاں پر سماج دشمن عناصر موجود ہیں، لیکن کراچی کے لوگ عمومی طور پر امن کے خواہاں اور امن پسند ہیں۔
پاکستان کی معیشت کا انحصار کراچی پر ہے، اور اگر یہاں حالات خراب ہوں، تو پورے ملک پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ مگر اب بدقسمتی سے امن و امان کی خراب صورت حال کے باعث کراچی کا شمار دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں کیا جانے لگا ہے۔
پڑھیے: کراچی: زندہ لاشوں کا شہر
غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ڈرتے ہیں، اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ظاہر ہے، جب سرمایہ کاروں کو ان کے کاروبار اور سرمائے کے محفوظ ہونے کی گارنٹی ہی نہیں ہوگی، تو وہ کیوں سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کا انتخاب کریں گے؟ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے عروس البلاد کراچی کے تاثر کو تبدیل کریں، تاکہ کوئی غیر ملکی خود کو یہاں غیر محفوظ نہ سمجھے اور کراچی کے باسیوں کو اپنے قائد کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
اس کام میں حکومتی تعاون کی ضرورت تو ہے، لیکن زیادہ تر کام ایسے بھی ہیں، جو کمیونٹی سطح پر کیے جا سکتے ہیں۔ میری نظر میں ہماری زرخیز ثقافت، فن اور کھیلوں کی سرگرمیاں ہی ایسا راستہ ہیں، جہاں کراچی کی عوام متحد ہو کر کراچی کے امن و امان کو واپس لاسکتے ہیں، کراچی کی شاموں کو پرسکون بنا سکتے ہیں، اور کراچی کا ہر شہری سکھ کی نیند سو سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو کمیونٹیز کی سطح پر کھیلوں سمیت مختلف سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے، اور کمیونٹی کے ہر گھرانے کو ان سرگرمیوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی جانی چاہیے تاکہ افراد آپس میں گھل مل سکیں اور باہمی اتفاق و یگانگت پیدا ہو سکے۔ اس کے بعد شہری سطح پر ثقافتی تقریبات کا انعقاد زیادہ سے زیادہ کیا جانا چاہیے، جن کے انعقاد کی ذمہ داری حکومت کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیموں، تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی پر بھی عائد ہوتی ہے۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول اور ساکنانِ شہرِ قائد مشاعرہ ایسی ہی سرگرمیاں ہیں، جو صحتمند رجحانات کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ خاص طور پر کراچی ادبی میلے میں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے لوگوں کی شرکت سے دنیا میں پاکستان، بالخصوص کراچی کا ایک بہت ہی مثبت تاثر جاتا ہے، اور اس طرح کی سرگرمی سال میں صرف ایک بار کے بجائے زیادہ باقاعدگی سے ہونی چاہیئں۔
جس طرح کراچی ادبی میلے میں داخہ مفت ہوتا ہے، اس طرح ان تمام تقریبات کی داخلہ فیس نہ رکھی جائے، یا صرف اخراجات جتنی رکھی جائے، تاکہ عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد شرکت کرسکے۔ مکمل فری ہونے سے امن کا یہ پیغام زیادہ پراثر ہوگا۔
اس کے علاوہ غیر ملکی افراد کو بھی کراچی کی ثقافت اور کلچر سے روشناس کروانے کے لیے کراچی کی قدیم جگہوں کے ثقافتی دورے کروائے جائیں، اور اس کی بہترین مثال سپر کراچی ایکسپریس بس سروس ہے۔
اگر کسی قوم کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، اور انہیں تعلیم و تفریح کے مواقع نہ فراہم کیے جائیں، تو وہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں، اسی لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اسپورٹس کمپلیکس وغیرہ بڑی تعداد میں تعمیر کیے جاتے ہیں تاکہ فارغ وقت ضائع کرنے کے بجائے کسی صحت بخش کام میں صرف کیا جائے۔
جانیے: کراچی امن کے لیے آٹھ تجاویز
کراچی میں یوں تو کئی جگہوں پر یہ سہولیات موجود ہیں، لیکن بڑھتے ہوئے کمرشل ازم کی وجہ سے کھیلوں کے میدانوں کو بھی رہائشی عمارتوں اور کاروباری مراکز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ پبلک پارکس میں کھیلنے کی اجازت نہیں ہوتی، اور سڑکوں اور گلیوں میں کھیل بہرحال میدان میں کھیلنے جیسا تجربہ نہیں فراہم نہیں کرسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کھیلوں کے میدانوں سے قبضے چھڑوا کر، اور نئے میدان بنا کر ان کے دروازے نوجوانوں کے لیے کھولے جائیں۔
ایک بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کراچی کو پر امن بنانے کے اس مشن میں ہر شہری کو آزادی رائے کے اظہار کا مکمل موقع فراہم کیا جائے اور کسی قسم کے سیاسی عزائم کو حائل نہ ہونے دیا جائے۔ حکومت اور سول سوسائٹی کو مل کر اس کام کو انجام دینا ہوگا۔ سیاستدانوں سے کراچی کے ہر شہری کی اپیل ہے کہ سیاست ضرور کریں، لیکن کراچی کے امن کا خاص خیال رکھیں۔ ان کی آپس میں معمولی چپقلش کا نتیجہ کراچی کے خراب حالات کی صورت میں نکلتا ہے، جو کہ ترقی یافتہ ممالک اور شہروں کا خاصہ نہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کے شہروں میں کمیونٹی ریڈیو سروس بھی ہوا کرتی ہے، جس کا پاکستان میں کوئی تصور ہی نہیں۔ کمیونٹی ریڈیو علاقوں کا اپنا ہوتا ہے، اور اس پر صرف علاقے کے حالات اور معاملات کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ کسی بھی علاقے کے لوگوں کو آپس میں جوڑے رکھنے کے لیے یہ ایک بہت ہی اچھی اور کارآمد چیز ہے، جس کا استعمال کر کے کمیونٹی میں مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔
مزید پڑھیے: کراچی: ایک مشکل شہر
ان تمام تجاویز میں خاص طور پر دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو بھی شامل کیا جانا چاہیے، کیونکہ ہمارے معاشرے کا یہ لازمی حصہ عام طور پر مذموم رہتا ہے، اور انہیں مرکزی دھارے میں نہیں رکھا جاتا۔ چاہے کھیل کود ہو، یا ادبی سرگرمیاں، معاشرے کے ہر فرد کا اس میں حصہ لینا ضروری ہے، ورنہ کراچی میں امن اور اتفاق قائم کرنے کا مشن پورا نہیں ہوسکے گا۔
یہ یاد رہے کہ یوں تو یہ تجاویز کراچی کے تناظر میں ہیں، لیکن انہی تجاویز کے ذریعے وطنِ عزیز کے باقی شہروں میں بھی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔
آخر کب تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے حکومت کا انتظار کرتے رہیں گے؟ آئیں اپنا اپنا کردار ادا کریں، تاکہ ہمارے شہر بھی اگر دنیا کے لیے ماڈل شہر نہ سہی، تو کم از کم موجودہ سے بہتر بن جائیں۔
مدیحہ خالد نے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا ہے۔ انہیں مطالعہ کرنا اور لکھنا پسند ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔