نقطہ نظر

حج بھی زرد صحافت کی نذر

حج فارم میں مسلک کے بارے میں سوال پہلے سے موجود ہے جبکہ بغیر تحقیق خبر نگاری سے کئی بحثوں نے جنم لیا۔

پہلے سوشل میڈیا پر شور ہوا، اور پھر جب ایک نیوز ویب سائٹ نے خبر شائع کی، تو یہ شور بڑھتا ہی چلا گیا۔ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ حج درخواست فارم میں 'کیا آپ شیعہ ہیں؟' کا سوال سعودی عرب کی ایما پر شامل کیا گیا تھا۔

جب میں نے پہلی بار یہ خبر ایک فیس بک پیج پر دیکھی، تو میں نے اسے نظرانداز کر دیا، کیونکہ زیادہ تر فیس بک پیجز پر بے بنیاد پروپیگنڈا اور غلط بیانی عام بات ہے، جسے نظرانداز ہی کیا جانا چاہیے۔ لیکن پھر ایک دن بعد میں نے اس حوالے سے خبر پڑھی تو معاملہ کچھ سنجیدہ لگنے لگا۔

میں نے اپنی والدہ سے اس بارے میں پوچھا، جو گذشتہ سال ہی حج پر گئیں تھیں۔ جس قافلے کے ساتھ وہ حج پر گئیں تھیں، انہوں نے اس کے سربراہ کی اہلیہ سے اس بارے میں پوچھا۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کئی سالوں سے حج قافلوں کی رہنمائی کر رہی ہیں۔

ان سے پوچھنے کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ یہ سوال کوئی نیا اضافہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "میں درخواست فارم میں یہ سوال تقریباً ایک دہائی سے دیکھ رہی ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ یہ اس سے بھی پہلے سے اس میں موجود ہے۔"

اس سوال کا فارم میں ہونا، جیسا کہ اب کئی لوگ جان چکے ہیں، ایک فقہی مسئلے کی وجہ سے ہے، جس کے مطابق شیعہ خواتین کے حج پر جانے کے لیے محرم کا ہونا لازم نہیں، جبکہ سنی خواتین کو ہر حال میں محرم کے ساتھ ہی جانا ہوتا ہے۔ بلاگ پڑھتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھیے گا کہ یہ سوال ایک دہائی سے بھی زیادہ پرانا ہے۔

فیس بک پر اس خبر نے تہلکہ مچا دیا، اور ہر طرف تجزیے شروع ہوگئے کہ سعودی یمن تنازع کی وجہ سے اس سال شیعہ حاجیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے (جیسا کہ خبر میں تجویز کیا گیا تھا)۔

اس کو دیکھتے ہوئے میں نے ایک فیس بک اسٹیٹس پوسٹ کیا، تاکہ شکوک و شبہات کو دور کرتے ہوئے وضاحت کی جا سکے۔ غیر متوقع طور پر میرا اسٹیٹس 750 سے زیادہ دفعہ شیئر کیا گیا۔ زیادہ تر لوگوں نے میری بات سے اتفاق کیا، کچھ لوگوں نے تنقید کی، جبکہ باقی لوگ تذبذب کے عالم میں رہے۔

کچھ وقت کے بعد وہ خبر ویب سائٹ سے ہٹا دی گئی، مگر لوگوں میں آگاہی پھیلنے کے باوجود انٹرنیٹ پر اس حوالے سے مباحثے جاری رہے، اور کچھ لوگوں نے تو نہایت ہی فضول اعتراضات و نکات اٹھائے۔

مثلاً کسی کا کہنا تھا کہ درخواست فارم میں عورت سے پوچھ ہی کیوں نہیں لیا جاتا کہ آیا وہ محرم کے ساتھ سفر کرنا چاہتی ہے یا بغیر۔

سادہ سی بات ہے کہ حج فارم عورت سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ وہ قانون کی پاسداری کرنا چاہتی ہے یا نہیں۔ پاکستان ایک سنی اکثریتی ملک ہے، اور سنی فقہ میں خواتین کے لیے سفرِ حج کے دوران محرم کا ہونا لازمی ہے۔ اقلیتی شیعہ برادری کی خواتین کو اجازت ہے کہ وہ محرم کے بغیر جائیں، لیکن یہ بھی اس لیے ہے کیونکہ ان کے فقہ، یعنی فقہ جعفریہ میں اس بات کی رخصت موجود ہے، اس لیے نہیں کہ یہ عورت کی صوابدید پر ہے۔

چنانچہ اس معاملے میں حکومت درخواست فارم میں یہ سوال پوچھ کر قانون کی پاسداری یقینی بنا رہی ہے، اور یہ اقدام درست ہے۔

اس کے بعد ہر چیز میں سازش تلاش کرنے والوں نے فوراً اس کے تانے بانے ریاض سے جوڑنے شروع کر دیے، کہ سعودی ریاست حاجیوں کا مسلک اس لیے جاننا چاہتی ہے، کیونکہ اسے سعودی یمن تنازع کی وجہ سے اپنے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرہ ہے۔

کچھ سادہ لوح قارئین یہ سمجھے کہ یہ سعودی عرب کی پاکستان کو ڈکٹیشن کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہ بھی بات درست نہیں ہے۔

اگر یہ سوال ایک دہائی سے بھی پہلے سے، یا اس لنک کے مطابق کم از کم 2012 سے، یا میری والدہ کے حج کے وقت (گذشتہ سال) سے حج فارم میں موجود ہے، تو پھر اسے یمن کے حالیہ تنازع سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے۔

اور سب سے غلط بات یہ ہے کہ اس سب کی وجہ سے حج کے تقدس کو نقصان پہنچا۔

پڑھیے: غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے تباہ کن اثرات

میں امید کرتی ہوں کہ ہمارے لوگ کسی بھی چیز پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے اور اسے آگے پھیلانے سے پہلے تحقیق کریں گے، لیکن میں میڈیا سے بھی یہ درخواست کرتی ہوں کہ وہ احتیاط سے کام لیں، اور کچھ اخلاقیات کا مظاہرہ کریں، خاص طور پر تب جب بات مذاہب اور مسالک جیسے حساس موضوعات پر ہو۔ حج کو سیاست سے پاک رکھیں۔

صحافت کی بنیاد مقصدیت اور حقائق پر ہے، اور اگر اس میں سے یہ نکال دیے جائیں، تو کچھ باقی نہیں بچتا۔

انگلش میں پڑھیں۔

نرجس فاطمہ

نرجس فاطمہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کی گریجویٹ ہیں۔

وہ بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی پھیلانے اور سفر کا شوق رکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔