'نا' کہنا کب اور کیوں ضروری ہے؟
کامیاب لوگوں میں کافی چیزیں مشترک ہوتی ہیں۔ فرق صرف ان کے کام میں نہیں ہوتا، بلکہ یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ کس چیز پر 'نا' کہتے ہیں۔ کامیاب لوگوں کی ایک اچھی عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ 'نا' کہنا سیکھتے ہیں، کیونکہ اس طرح وہ ان ذمہ داریوں سے بچ جاتے ہیں، جو ان کی صلاحیتوں اور کارکردگی کے خراب ہونے کا باعث بن سکتی ہیں۔ اسی لیے وہ انہی 24 گھنٹوں کا زبردست استعمال کر پاتے ہیں، جنہیں دوسرے لوگ اپنے کاموں کے لیے کم سمجھتے ہیں۔
نا کہنا ضروری ہے، کیونکہ اگر ایسا نا ہوتا، تو آفسوں میں ‘جی حضوری’ کا محاورہ نہ ہوا کرتا، اور نہ ہی اس محاورے کو برا اور تضحیک آمیز سمجھا جاتا۔ کئی لوگ خود سے کی گئی کسی درخواست پر نہ چاہتے ہوئے بھی ہاں کہہ ڈالتے ہیں، اور وہ ایسا کبھی سماجی تعلقات کی بنا پر کرتے ہیں، کبھی اپنے افسر کے زور ڈالنے پر، اور کبھی صرف اس لیے کہ دوسروں میں اپنا تاثر خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔
لوگ اس لیے بھی نا کہنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ دوستوں کی درخواست پر نا کہنا ان کے درمیان فاصلے بڑھا سکتا ہے، یا باسز کو نا کہنے سے ان کا کریئر خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس طرح وہ ان ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اٹھا لیتے ہیں، جو درحقیقت ان کی ذمہ داری ہوتی ہی نہیں۔
پڑھیے: دس عادات جو بنا دیں وقت کو آپ کا غلام
اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں رائج عمومی رویے بھی نہ چاہتے ہوئے ہاں کہنے کا سبب بنتے ہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں کسی کی درخواست پر نا کہنے کو برا سمجھا جاتا ہے، اور کچھ مواقع پر تو ایسا کرنے والے کے اخلاق پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
لیکن پچھلی دہائی سے اب پاکستانی کارپوریٹ کلچر نے خود کو تبدیل کرنا شروع کیا ہے۔ نئے آنے والوں کو ان کی ترجیحات، اور پرانے ملازمین کو کام کرنے کے روایتی اور غیر پیداواری طریقے چھوڑ کر نئے طریقے اپنانے کے بارے میں تربیت دی جاتی ہے، تاکہ ہر شخص سب سے پہلے وہ کام کرے، جس کے لیے اسے کام پر رکھا گیا ہے۔
اس لیے جب بھی آپ کے سامنے کوئی ساتھی اپنا کام لے کر آئے، تو سب سے پہلے اپنی ڈیسک پر موجود اپنا کام دیکھیں، اپنی ترجیحات کا تعین کریں، اور جب ایک بار آپ یہ سمجھ لیں کہ کسی اضافی کام کو ہاں کہنا خود کو مشکل میں ڈالنا ہے، تو نا کہہ دیں۔ یہ اتنا آسان نہیں ہوتا، لیکن ان چار طریقوں پر عمل کر کے آپ بھی نا کہنے کے اس فن میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔
شائستگی سے اپنی بات کہیں:
نا کہنے کے فن میں مہارت حاصل کرنے کا پہلا کلیہ یہ ہے کہ شائستگی سے اپنی بات کہنا سیکھیں، کیونکہ صرف آپ کی بات کا نہیں، آپ کے کہنے کے انداز کا بھی سننے والے پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ نرم لہجے میں منع کردیں، اور توجیہ کے طور پر کچھ اس طرح کے جملے کہہ دیں، "میرے پاس پہلے ہی کچھ ڈیڈ لائنز ہیں، کیا آپ کسی اور کو کہہ سکتے ہیں؟" یا "میں آپ کی مدد ضرور کرتا، لیکن فی الوقت میں اس پراجیکٹ پر کام کر رہا ہوں، جو کہ نہایت ضروری اور اہم ہے۔"
مزید پڑھیے: وقت سے پہلے کام ختم کرنا بے فائدہ
صاف صاف ہاں یا نا کہیں:
درخواست کرنے والے کو ہاں اور نا کے درمیان نہ لٹکائے رکھیں، کیونکہ شاید کوئی آپشن نہیں ہے۔ آپ کے پاس اپنے کاموں کی فہرست موجود ہے، اور آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ کو ان سب کاموں کو مکمل کرنے میں کتنا وقت لگنے والا ہے۔ اس لیے آپ کو ہاں یا نا کا فیصلہ کرنے میں مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آپ اپنے روٹین کو نقصان پہنچائے بغیر ان کی مدد کر سکتے ہیں، تو ضرور کریں، اور اگر نہیں کر سکتے، تو نا کہہ دیجیے۔ ہاں کہہ کر بعد میں پچھتانے سے یہی بہتر ہے۔
کچھ بھی چھپائیں مت:
آپ جو بھی جواب دیں، وہ اس وقت زیادہ قابلِ یقین بنے گا، جب آپ درخواست کرنے والے کو اپنے روٹین میں جھانکنے دیں۔ 'کیا' اور ‘کیوں’، یہ دونوں چیزیں دوسرے شخص کو آپ کی مجبوری فوراً سمجھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ یہ طریقہ خاص طور پر سپروائزر یا مینیجر سے بات کرتے وقت کام آ سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر آپ وہ کام کرنا چاہتے ہیں، اور اسے اپنی مہارت بڑھانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، تو اپنے سپروائز سے اس بارے میں بات کریں۔ انہیں بتائیں کہ آپ وہ کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن پہلے سے موجود کاموں کی وجہ سے ہاں نہیں کہہ سکتے، اس لیے اگر آپ پر سے ایک یا دو کاموں کا بوجھ ہٹا دیا جائے، تو آپ بخوشی کر سکیں گے۔ اگر آپ اپنی ترجیحات کے تعین میں مشکل کا شکار ہیں، تو اپنے مینیجر سے رہنمائی حاصل کریں۔
حیران کن: ہر نوکری چھوڑ دینے والے شخص کی کہانی
اپنے اور ان کے وقت کی قدر کریں:
زیادہ تر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ درخواست کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ایسا کرنا نا کہنے کے مقابلے میں آپ کی ساکھ اور آپ کے تعلقات کو زیادہ نقصان پہنچائے گا۔ اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ آپ توجہ نہیں دے رہے، جو کہ بدتہذیبی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
اگر کوئی آپ کے پاس کوئی درخواست لے کر آئے، اور آپ کے پاس پہلے سے بہت کام موجود ہوں، تو یہ یاد رکھیں کہ صرف آپ کا وقت قیمتی نہیں، بلکہ ان کا وقت بھی قیمتی ہے۔ اگر آپ ان سے اتفاق نہیں کرتے، یا کسی مسئلے پر دوسری رائے رکھتے ہیں، تو نا کہہ دیں۔ اگر آپ ان کے کام میں مہارت نہیں رکھتے، یا سمجھنے میں مشکل کا شکار ہیں، تو اپنی بات کہہ ڈالیں۔ اور یہ جتنا جلد سے جلد کر سکیں، اتنا اچھا ہے، تاکہ وہ اپنے کام کے سلسلے میں کسی اور سے مدد طلب کر سکیں۔ کہیں ایسا نا ہو کہ آپ جلد بازی میں کچھ سوالات پوچھے بغیر ہاں کہہ بیٹھیں، اور بعد میں وہ کام نہ کر پانے کی وجہ سے آپ دونوں کا وقت ضائع ہو۔
ہم سب ہی ایک ایسے کارپوریٹ کلچر کا حصہ ہیں، جس میں ہمارا کام کئی بار ایک دوسرے سے پڑتا ہے۔ ملازمین پر کارکردگی اور اپنے ساتھیوں سے اچھے تعلقات بنائے رکھنے کے لیے کافی پریشر ہوتا ہے۔ اس لیے 'کب کیا کہنا ہے' کا فن سیکھنا اور اسے استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ مشکل تو ہے، لیکن یہ شروع کرنے میں وقت کی کوئی قید نہیں۔
آج سے شروع کریں، اور دیکھیے گا کہ آپ کے کام میں کیسے بہتری آنے لگتی ہے۔
سیدہ افرا نقوی بزنس گریجویٹ ہیں، اور روایتی کارپوریٹ کلچر میں تبدیلی کی خواہشمند ہیں۔ ایموشنل انٹیلیجنس ان کا پسندیدہ موضوع ہے جس پر وہ تحقیق کر رہی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: iffxx@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔