انٹرنیٹ آخر کب سستا ہوگا؟
کہا جاتا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف جمہوریت میں موجود ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں عمومی طور پر مارشل لاء حکومت میں عوام کو زندگی کی بہتر سہولتیں ملتی ہیں، اور حکومتی اداروں میں ایک نظم و ضبط نظر آتا ہے۔
بے شمار ایسی سہولیات جو عوام کو مارشل لا حکومت میں مل رہی تھیں، وہ موجودہ جمہوری حکومتوں نے آہستہ آہستہ ختم کردی ہیں۔ مثلاً نئی یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز کا تسلسل سے قیام، جو سال 2002 سے سال 2008 کے فوجی دورِ حکومت میں پوری آب وتاب سے جاری رہا، لیکن اس کے بعد کی جمہوری حکومتوں میں یہ سلسلہ مسلسل کم ہوتے ہوتے آخر ختم ہوگیا۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ کچھ اس ہی طرح کی صورت حال پاکستان میں انٹرنیٹ کے ساتھ بھی درپیش ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر عطاء الرحمان کی کوششوں سے عالمی مارکیٹ میں ریٹ کی کمی کے بعد پاکستان میں بھی انٹرنیٹ ریٹس کئی گنا کم کردیے گئے، جس کا براہِ راست فائدہ عام صارف کو پہنچا اور پاکستان میں انٹرنیٹ ’’مضبوط مڈل کلاس‘‘ کی پہنچ میں آگیا۔
لیکن بعد کی جمہوری حکومتوں نے انٹرنیٹ کے ریٹس کم مزید کم کرنے کے بجائے اس کی کوالٹی کو مزید گرا دیا، جس میں غیر اعلانیہ سینسر شپ، انٹرنیٹ ایکسچینج کا قیام، یوٹیوب کی مسلسل اور سوشل میڈیا کی وقتاً فوقتاً بندش، اور انٹرنیٹ کمپنیوں کی سروس کے معیار کی جانچ پڑتال کا نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
پڑھیے: سائبر کرائم بل آزادی پر خطرناک حملہ کیوں ہے؟
عالمی مارکیٹ میں ہر گزرتے سال کے ساتھ بینڈوتھ کے دام کم ہوتے جا رہے ہیں، اور سالانہ تقریباً 25 سے 35 فیصد کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ نیچے دیے گئے ٹیبل کے مطابق آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکا انٹرنیٹ ریجن میں 1998 میں فی میگابٹ پر سیکنڈ (Mbps) بینڈوتھ کا ریٹ 1200 امریکی ڈالر تھا، جو کم ہوتے ہوتے دس بعد سال 2008 میں صرف بارہ ڈالر رہ گیا، جبکہ 2015 میں یہ 0.63 امریکی ڈالر ہے جو تقریباً 64 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔
لیکن پاکستان میں انٹرنیٹ صارف کے لیے ریٹس کی کمی آخری دفعہ مارشل لا دورِ حکومت (سال 2006) میں کی گئی، اور اب جب کہ عالمی منڈی میں بینڈوتھ کے ریٹ میں کئی سو گنا کمی واقع ہو چکی ہے، اس کے باوجود پاکستان میں عام انٹرنیٹ صارف سے 2006 والی قیمت وصول کی جارہی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ پاکستانی ماہر شہزاد قیصر کے مطابق ’’اس وقت عام صارف کو 1250 روپے ماہانہ میں ایک ایم بی پی ایس کی بجائے 8 ایم بی پی ایس کا کنکشن ملنا چاہیے، جب کہ ایک ایم بی پی ایس کی قیمتِ فروخت 150 سے 200 تک روپے ہونی چاہے۔‘‘
پاکستان میں جس قیمت پر ایک ایم بی پی ایس کا کنکشن دستیاب ہے، اسی قیمت یا اس سے کچھ زیادہ پر پڑوسی ملک ہندوستان میں صفِ اول کی کمپنیاں 4، 12، اور 16 ایم بی پی ایس تک کے کنکشن فراہم کر رہی ہیں۔ ان پیکجز میں ڈاؤن لوڈنگ اور اپ لوڈنگ کی ایک حد ہے، لیکن کیا پاکستان میں اتنی کم قیمت پر اتنی بہترین اسپیڈ میسر ہے؟ اگر چاہیں تو انٹرنیٹ پر تھوڑی سی سرچنگ، اور ہندوستانی اور پاکستانی روپے کے درمیان فرق کا حساب لگا کر اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
پاکستان بھر میں انٹرنیٹ فراہم کرنی والی کمپنیز کی ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ پر جاری شدہ اعداد و شمار کے مطابق ابھی تک وطنِ عزیز کے صرف ڈھائی کروڑ (25 ملین) افراد انٹرنیٹ استعمال کرسکتے ہیں، جن میں نصف سے زیادہ تعداد یعنی ڈیڑھ کروڑ (15 ملین) افراد کو موبائل فون کمپنیاں (بطور تبرک) انٹرنیٹ کا ذائقہ چکھاتی ہیں، جب کہ براڈبینڈ (DSL, Wimax, HFC, Evo) صرف سترہ لاکھ (1.7 ملین) افراد کی پہنچ میں ہے۔
یعنی کُل ڈھائی کروڑ انٹرنیٹ صارفین میں سے صرف تقریباً 6 فیصد پاکستانی انٹرنیٹ ’’آسانی سے استعمال‘‘ کرتے ہیں۔ آسانی سے استعمال کا مطلب تیز اور بلاتعطل انٹرنیٹ ہے۔ میرا ذاتی خیال اور تجربہ ہے کہ موبائل فون پر انٹرنیٹ کا استعمال ایک مشکل کام ہے، جبکہ بغیر ڈی ایس ایل (براڈبینڈ) سست کنکشن کا استعمال انتہائی ذہینی اذیت کا باعث ہے۔
مزید پڑھیے: وکیپیڈیا پر پاکستان کی "کم" موجودگی
سال 2015 میں پاکستان کی آبادی محتاط انداز کے مطابق 19 کروڑ سے زائد لوگوں پر مشتمل ہے، یعنی اس حساب سے کل آبادی کا صرف 13 فیصد حصہ ہی انٹرنیٹ استعمال کرسکتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں کتنے لوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی ہے، اس کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان 161ویں نمبر پر ہے، جب کہ پاکستان کے اردگرد اور پاکستان پر اثرانداز ہونے والے ممالک کی پوزیشن ہم سے بہت بہتر ہے۔ صرف بنگلہ دیش اور افغانستان ہم سے پیچھے ہیں، اور ماہرین کے مطابق وہ بھی آئندہ سالوں میں ہم سے آگے نکل جائیں گے۔
پاکستان کی عام آبادی انٹرنیٹ کیوں استعمال نہیں کرتی، اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں اس کی بلند قیمت ہے۔ یا جو پاکستانی سست انٹرنیٹ کنکشن استعمال کررہے ہیں، اس کی واحد وجہ ’’براڈبینڈ‘‘ کی قیمت کا عام صارف کی قوت خریدار سے باہر ہونا ہے۔
اس کے علاوہ انٹرنیٹ کمپنیوں کی ’’کوالٹی‘‘ اور کوریج ایک اور دکھ بھری کہانی ہے۔ میں اپنے آنسوؤں سے یہ صفحات تر نہیں کرنا چاہتا، اس لے اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔
پاکستان کی ’’عوام دوست جمہوری حکومتیں‘‘ صبح وشام طلبہ وطالبات کو لیپ ٹاپس دے رہی ہیں۔ پہلے صرف پنجاب کو بدلا جا رہا تھا، اب پورے پاکستان کو بدلنے کا منصوبہ شروع ہوچکا ہے۔ حکومت یہ سمجھتی ہے، بلکہ اس بات پر سو فیصد یقین رکھتی ہے کہ ان لیپ ٹاپس سے طلبہ و طالبات کی تعلیمی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔
لیکن عالی جاہ! ان لیپ ٹاپ کا کیا فائدہ، جب طلبہ و طالبات کی اکثریت انٹرنیٹ بلند قیمت کی وجہ سے حاصل نہیں کرسکتی۔ اور میرے علم کے مطابق پاکستان میں عام مارکیٹ میں دستیاب سی ڈیز/ڈی وی ڈی میں تعلیمی سوفٹ ویئر یا ای بکس نہ ہونے کے برابر ہیں۔
جانیے: انٹرنیٹ کے بغیر آپ پڑھ سکیں گے ای بکس
یہ لیپ ٹاپ صرف سرکاری اور نیم سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات میں تقسیم ہو رہے ہیں۔ عموماً سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔ وہ ڈی ایس ایل، لائن رینٹ، اور ٹیکس وغیرہ ملا کر ماہانہ 1800 روپے یعنی سالانہ بیس اکیس ہزار روپے انٹرنیٹ پر خرچ نہیں کرسکتے۔
لہٰذا ایک دو ماہ کے بعد لیپ ٹاپ کو دیکھ کر ان کے ذہن میں فوراً یہ آواز آتی ہے ’’بیچ دے‘‘۔
لیکن ’’اسکیم کے لیپ ٹاپ‘‘ کی فروخت پر حکومت نے پابندی عائد کر رکھی ہے، اوپر سے ایچ ای سی کا آرڈر ہے کہ ڈگری کے لیے ’’اسکیم کے لیپ ٹاپ‘‘ کی منہ دکھائی لازمی ہے۔ اگر ’’براڈبینڈ‘‘ کی قیمت ان طلبہ و طالبات کی قوت خریدار کے مطابق ہو تو پھر ہی ان کا فائدہ ہے، ورنہ اس طرح تو یہ لیپ ٹاپ ان کے کسی کام کے نہیں۔
ویسے ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت انسانی وسائل کی ترقی کے لیے ’’براڈبینڈ‘‘ پر سبسڈی دے، لیکن حکومت تو الٹا اس کو مہنگے داموں فروخت کررہی ہے۔
پڑھیے: کم قیمت انٹرنیٹ ڈرون کے ذریعے
انٹرنیٹ آج کے دور میں عیاشی نہیں، بلکہ اِس سے ہر شخص کے کام کرنے کی صلاحیتوں میں بہتری آرہی ہے۔ وہ اخبار نویس ہو، ٹیچر ہو، طالب علم ہو، ڈاکٹر ہو، یا تاجر، بروقت اور درست معلومات سے اس کے لیے فیصلہ سازی آسان ہوجاتی ہے، جس سے نہ صرف اس کے کام میں نکھار آتا ہے، بلکہ اس کا شعبہ بھی ترقی کرتا ہے۔
اس لیے حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر انٹرنیٹ کے ریٹ کو عام آدمی کی قوت خرید تک پہنچائے، اور اس طرح کا نظام قائم کریں جس سے ہمیشہ انٹرنیٹ کمپنیاں عالمی مارکیٹ کے ریٹ کی کمی کا فائدہ عام صارف کو دینے کی پابند ہوں۔ اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کو بھی چاہیے کہ اگر اس کے پاس سینسرشپ سے کچھ وقت اور توانائی بچ جائے، تو ذرا انٹرنیٹ کمپنیوں کے معیار اور کوریج پر بھی ایک نظر ڈالے، تاکہ ان لوگوں کا بھی بھلا ہو جو ہر ماہ ہزاروں روپے کا بل بھی بھرتے ہیں، جبکہ اسپیڈ 2G کے جیسی ملتی ہے۔
یہ حکومت کا ہم پر احسان نہیں، بلکہ حکومت کا فرض ہے۔
حسن اکبر لاہور کی آئی ٹی فرم ہائی راک سم میں مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ شخصیت میں بہتری کا جذبہ پیدا کرنے والی کتب کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں۔ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ حسن اکبر ڈاٹ کام پر پڑھے جا سکتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔