نقطہ نظر

سچ کا سفر: غیر متاثر کن سوانح حیات

کتاب کی مقبولیت کے پیچھے تنازعات کا ہاتھ زیادہ ہے جبکہ اپنے معیار اور مواد کے اعتبار سے یہ بہت متاثر کن نہیں ہے۔

دنیا بھر میں شہرت یافتہ شخصیات اپنی زندگی کو جب قلم بند کرتی ہیں، تو وہ سب کچھ یادداشتوں، سوانح عمری، یا خودنوشت کی صورت میں شائع ہوتا ہے۔ ایسی نوعیت کی کتابیں بہت مقبول ہوتی ہیں، اگر ان میں نئی اور متنازع باتیں زیادہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مقبول ترین شخصیات کی زندگی کی کہانیوں میں ایسے کردار چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں، جن کا تذکرہ ناگزیر ہوتا ہے، ان میں کئی پردہ نشین بھی ہوتے ہیں۔

پاکستان میں بھی ہمیں سیاست دانوں، جرنیلوں، کھلاڑیوں اور اداکاروں کی خودنوشتیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ گذشتہ چند دہائیوں کا جائزہ لیا جائے، تو سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی سوانح عمری بھی ایک ایسی کتاب تھی، جس کو بے حد مقبولیت ملی تھی۔ اس کے بعد اگر کسی پاکستانی شخصیت کی سوانح عمری شائع ہونے کے بعد مقبول ہوئی تو وہ مشہور کاروباری شخصیت صدرالدین ہاشوانی کی ہے، جس کا انگریزی زبان میں نام ”Truth Always Prevails“ جبکہ اردو میں ”سچ کا سفر“ ہے۔ اس کتاب کو بے حد شہرت ملی، اورچونکہ اس میں بہت ساری باتیں متنازع تھیں، اس لیے قارئین کی توجہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

صدرالدین ہاشوانی کی اس کتاب پر پاکستان کے تمام معروف کالم نویسوں نے تبصرے کیے اورمختلف نیوز چینلز پر اس کتاب کے حوالے سے ہاشوانی صاحب کے انٹرویوز بھی نشر کیے گئے، لہٰذا کتاب کا متن کیا ہے اور اس میں کیا کیا اہم نکتے ہیں، یہاں ان باتوں کو مزید دہرانے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو بات بیان ہوجائے گی۔

یہ کتاب انگریزی اور اردو دو زبانوں میں بیک وقت شائع کی گئی۔ 13 ابواب پر مشتمل اس کتاب میں صدرالدین ہاشوانی نے اپنے بچپن، کاروباری زندگی، سیاسی دشمنیوں، اور معاشی کامیابیوں کی روئیداد بیان کی ہے۔ باقاعدہ کتاب کے آغاز سے پہلے ہی عرضِ ناشر، اظہارِ تشکر، تعارف، اور دیباچے کے نام پر وہ باتیں بیان کردی گئی ہیں، جنہیں اگر ان ابواب کی فہرست کے مطابق ہی متن میں شامل کیا جاتا تو زیادہ موزوں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر باتوں میں تکرار محسوس ہوتی ہے۔ کسی بھی سوانح عمری اور یادداشت کا انداز یہ نہیں ہوتا، اس لیے کتاب نے شروع سے ہی قاری کو اپنی گرفت میں نہیں لیا۔

اس کتاب کی تعریف میں لکھنے والوں کی اکثریت نے زمین آسمان ایک کردیے، لیکن اگر منطقی طور پر اس کا جائزہ لیا جائے تو کتاب تین حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گی، جنہیں ہم تکنیکی، تحقیقی اور تخلیقی پیمانوں میں رکھ کر جانچ سکتے ہیں۔

پیشہ ور لکھنے والے جانتے ہیں کہ کسی بھی سوانح عمری، خودنوشت اور یادداشتوں میں ان پیمانوں کی اہمیت کتنی ہے، لہٰذا اس بحث میں پڑے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔

تکنیکی طور پر یہ کتاب غیرمتاثر کن ہے، کیونکہ انگریزی کتاب میں جس طرح کا کاغذ استعمال ہوا ہے، اردو میں اس سے کہیں کم معیار کا کاغذ استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اکثر صفحات پر حروف کی سیاہی دھندلی اور کہیں زیادہ ہے۔ اردو ترجمے میں نفاست کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ صدرالدین ہاشوانی کی زندگی کے مختلف ادوار کی تصاویر کو ایک ہی جگہ چھاپ دیا گیا، حالانکہ بہت مناسب ہوتا، اگر ابواب کی ترتیب کے لحاظ سے تصاویر شائع کی جاتیں۔

کتاب کے لیے اردو میں لفظ ”خودنوشت“ استعمال ہوا، جبکہ یہ کتاب ہاشوانی صاحب نے خود نہیں لکھی، بلکہ اشوک ملک ان کے معاون تھے، جس کا اعتراف انہوں نے کتاب میں بھی کیا۔ انگریزی میں ان کے لیے ”آٹو بائیوگرافی“ اور ”میموریز“ کے الفاظ استعمال کیے گئے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ایک اہم بات جو انہوں نے اپنی اس کتاب میں لکھی، وہ یہ ہے کہ ”میں نے زندگی میں کوئی کتاب نہیں پڑھی“۔ لہٰذا اب یہ کتاب اچھی بری جیسی بھی ہے، اس کا کریڈٹ ان لوگوں کو جاتا ہے جنہوں نے اس کتاب کا خاکہ تیار کیا اور شائع کی۔

تکنیکی لحاظ سے ابواب میں ربط نہیں ہے۔ جہاں کچھ باتوں کو بالکل ابتدا میں ہی بیان کردیا گیا ہے اور کچھ باتیں اچانک سے تذکرے کے دوران امڈ آتی ہیں۔

تحقیقی لحاظ سے اگر اس کتاب کا جائزہ لیا جائے تو کچھ پہلو ایسے ہیں، جو بہت متاثر کن ہیں۔ جیسے کہ پاکستان کے کوچہء سیاست کی چور بازاری کا بڑی تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔ بہت ساری باتیں ایسی ہیں، جو چونکا دینے والی ہیں، بالخصوص سیاسی شعبدہ بازوں کے کرتب، حکومتی مشینری کا ذاتی کاموں کے لیے استعمال، اور سب سے بڑھ کر جمہوریت کے نام پر طاقت اور دولت کے بے لگام گھوڑے کی داستان کا عکس اس سوانح عمری میں ملتا ہے۔

پھر کتاب کے شروع میں ہی پاکستان کی مختصر تاریخ کو بیان کیا گیا اور اسماعیلی مسلمانوں کے سلسلے کی تفصیل بھی بیان کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ انتہائی بچکانہ اور تدریسی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ کہیں سے بھی تاثر نہیں ملا کہ کوئی شخص اپنی زندگی کی کہانی سنا رہا ہے، ان حصوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زبردستی اس کہانی کو طول دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

ہرچند کہ اس کوشش نے کئی پراثر اور چونکا دینے والے واقعات کی اہمیت کو بھی کم کردیا ہے، لیکن اس کے باجود نئی نسل کے لیے سیاسی غلام گردشوں کو سمجھنے کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہاشوانی صاحب نے سیاسی شعبدہ بازوں کا ذکر تو تفصیل سے کیا، مگر عسکری شخصیات کا صرف جزوی حوالہ دے کر آگے بڑھ گئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ کہاں کون سا ترپ چلنا ہے، اسی لیے تو کامیاب کاروباری شخصیت ثابت ہوئے ہیں۔

تخلیقی طورسے اس کتاب نے بالکل متاثر نہیں کیا، کیونکہ کسی بھی مقبول شخصیت کی زندگی کے نشیب وفراز سے قاری کو گہری دلچسپی ہوتی ہے، لیکن یہاں واقعات کا ایک ڈھیر جمع کر کے اس کو کتابی شکل دے دی گئی، جس کی وجہ سے کتاب میں قاری کے لیے کشش نہیں رہی۔

اردو ترجمے میں جملوں کی تکرار بہت ہے۔ بہت سارے لفظوں کی املا بھی غلط ہے، اور کہیں کہیں قواعد کی غلطیاں بھی ہیں۔ یہاں تک کہ کتاب کھولتے ہی دائیں طرف کتاب اور موضوع کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے پہلی سطر میں پہلی غلطی موجود ہے۔ لکھنے والے کی توجہ کا اندازہ یہیں سے لگا لیں، آگے چل کر اس نے زبان کی کیا درگت بنائی ہوگی۔

اگر میں ان سب نکات کو مثالوں سے واضح کر کے لکھوں تو یہ تبصرہ پھر بہت طویل ہوجائے گا۔ مختصراً کہا جائے تو اس کتاب کے لیے اگر کسی ماہر پیشہ ور بائیوگرافر یا قلم کار کی معاونت حاصل کی جاتی، تو شاید یہی کہانی ایک مختلف اور مؤثر انداز میں لکھ کر قارئین تک پہنچائی جاسکتی تھی۔ اس کتاب کی زبان صحافتی انداز پر مبنی تھی، جبکہ دنیا کی جتنی بہترین سوانح عمری اور یادداشتیں شائع ہوئی ہیں، ان میں ادبی انداز کو پیش نظر رکھا گیا۔

ان تمام خامیوں کے باوجود ایک بات بہت مثبت ہے کہ ہاشوانی صاحب نے پاکستانی سیاست کے کئی چہرے بے نقاب کیے، مگر بہت کچھ انہوں نے ابھی بھی پردے میں رہنے دیا۔ اگر ملک سے محبت کا دعوی قوی تھا، اور اگر وہ ملک کے غیر معمولی واقعات کے شاہد تھے، تو پھر ملک و قوم کی خاطر ساری باتیں قوم کے سامنے رکھتے، تاکہ اس کا احتساب ہوسکتا۔ اور اگر احتساب نہ بھی ہوتا، تب بھی کم از کم لوگوں کی معلومات میں یہ باتیں ضرور آتیں۔ لیکن غیر محسوس انداز میں یہ کتاب ایک ایسی رپورٹ کا تاثر دیتی ہے، جس میں صرف ان واقعات اور شخصیات کا ذکر مثبت اور منفی انداز میں ہوا، جن پر ہاشوانی صاحب بات کرنا چاہتے ہیں۔

اس لیے یہ ذاتی خیالات پر مبنی، ایک مبہم، نیم سوانح عمری کہلائی جاسکتی ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کتاب کی مقبولیت کے پیچھے تنازعات کا ہاتھ زیادہ ہے اور معیار کا کم۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔