نقطہ نظر

میڈیا میں اردو زبان کا غلط استعمال

ٹی وی چینل زبان کی درستی اور ترویج میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن خود ہی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔

یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے باوجود ملک میں وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جو ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس زبانِ غیر ہونے کے باوجود انگریزی ملک میں راج کررہی ہے۔

چلیں یہاں تک تو پھر بھی قابلِ برداشت ہے۔ لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ پاکستان میں روز بروز ترقی کرنے والا الیکٹرونک میڈیا اردو زبان کی مزید زبوں حالی کا سبب بن رہا ہے۔ زبان کے قواعد و ضوابط کے اعتبار سے اردو کا غلط استعمال الیکٹرونک میڈیا پر عام ہے جو یقیناً اہلِ زبان اور صاحبانِ علم کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے کیونکہ غلط یا غیر معیاری زبان کا فروغ پہلے ہی سے ملک میں عدم توجہ کا شکار اردو کی مزید بربادی کا باعث بن رہا ہے، حالانکہ یہی تفریحی اور خبروں کے چینل اردو زبان کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

غلط اردو کا استعمال ٹی وی ڈراموں، اشتہارات، سیاسی و معاشرتی مباحثوں، خبروں، اور صبح نشر ہونے والے مارننگ شو وغیرہ میں عام ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ایک انتہائی غیر معیاری اور غلط زبان وجود میں آرہی ہے۔

ٹی وی چینلوں پر سیاسی اور سماجی مسائل پر بے باک اور بے لاگ تبصرہ کرنے والے اور خبریں پڑھنے والے خواتین و حضرات کی اردو سے شرمناک حد تک ناواقفیت بھی زبان و لسان کی اس زبوں حالی کی اہم وجوہ میں سے ایک ہے، لیکن اس اعتبار سے سرکاری ٹی وی نے اپنے معیار کو تا حال بلند کر رکھا ہے۔

سرکاری ٹی وی پر باقاعدہ اردو شناس افراد کو ملازم رکھا جاتا رہا ہے، تاکہ زبان کا صحیح استعمال ہوسکے۔ میزبانوں کے انتخاب میں سرکاری ٹی وی کا معیار بالخصوص ماضی میں اتنا بلند ہوا کرتا تھا کہ قریش پور،عبیداللہ بیگ، ضیاء محی الدین، طارق عزیز، مستنصر حسین تارڑ، انور مقصود، لئیق احمد، اور فراست رضوی جیسے شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور صاحبانِ مطالعہ افراد کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔

لیکن دورِ حاضر میں نجی چینلوں پر معاملہ یکسر مختلف نظر آتا ہے۔ یہاں زبان انتہائی مظلوم نظر آتی ہے۔ تذکیر و تانیث، تلفظ اور بنیادی قواعد کی غلطیاں عام ہوچکی ہیں۔

پڑھیے: اردو ہے جس کا نام

تلفظ کے بارے میں تو صاحبانِ زبان و لسان ذرا رعایت سے کام لیتے ہیں، کیونکہ بعض افراد جن کی مادری زبان اردو کے علاوہ کوئی اور ہو تو وہ تلفظ میں تھوڑی بہت غلطیاں کرتے ہیں جو کسی حد تک مخارج کی مجبوری ہوا کرتی ہیں۔ جیسے پنجابی حضرات 'ق' کو 'ک'، اور فارسی بان 'ق' کو 'غ' پڑھتے ہیں، گجراتی بولنے والے 'س' کو 'ش' اور 'ش' کو 'س' تلفظ کرتے ہیں، بھارت میں سنسکرت بولنے والوں میں 'ج' کو 'ز' یا 'ذ' تلفظ کرنے کا عام رجحان ہے۔

لیکن انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی شاید وہ واحد قوم ہے جو اپنی قومی زبان کے اصول و قواعد یعنی گرامر ہی تبدیل کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے چند جملے بطورِ مثال پیش خدمت ہیں، جیسے 'آپ کیا کرتے ہو'، 'آپ جاؤ گے'، 'آپ چائے پیو گے' یعنی ایک ہی جملے میں تعظیم بھی ہے اور تذلیل بھی۔ اسے اصطلاح میں شترگربہ کہتے ہیں۔

لڑکیوں کے لیے لفظ 'بیٹی' کی جگہ 'بیٹا' استعمال کرنا غلط العام تصور کیا جاتا ہے۔ بیٹیوں یا لڑکیوں کے لیے ان جملوں کا استعمال کہ 'بیٹا آپ کہاں جارہے ہو' یا 'آپ کیسے ہو' وغیرہ نہ صرف قواعد کی رُو سے غلط ہیں بلکہ ناقابلِ قبول بھی ہیں۔

اردو قواعد کی غلطیاں اتنی عام ہوچکی ہیں کہ لفظ 'عوام' کی جنس ہی تبدیل کردی گئی ہے، یعنی اس انتہائی عام لفظ کو مذکر سے مونث بنا دیا گیا ہے۔ سیاستدان اور بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کے نمائندگان اکثر و بیشتر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ 'عوام بیچاری مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئی ہے'، 'عوام تو بے اختیار ہوتی ہے'، وغیرہ۔ قواعد کے اعتبار سے یہ غلطیاں سنگین تصور کی جاتی ہیں۔

کچھ غیر معیاری الفاظ عام بول چال میں استعمال ہوتے ہیں، ان الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جیسے لفظ 'گڑبڑ' کی جگہ 'پنگے' کو استعمال کرنا، اسی طرح 'کہا' کے بجائے 'بولا'، 'مجھے' کی جگہ ' میرے کو'، 'کیا 'کی جگہ 'کرا' وغیرہ۔ ان غیر معیاری الفاظ کا استعمال الیکٹرونک میڈیا پر صحافی کثرت سے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے صحافیوں پر زیادہ تنقید کا سبب ان کی سماجی اور پیشہ ورانہ حیثیت ہے۔

چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک، صحافت الفاظ کو مستحسن انداز میں برتنے کا نام ہے۔ خبروں اور مباحثوں پر مبنی مختلف پروگراموں میں جلوہ افروز ہونے والے میزبانوں (جنہیں دورِ حاضر میں اینکرپرسن کہا جاتا ہے) کی گفتگو سنی جائے یا خبر پڑھنے والوں کو سنا جائے، تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ زیادہ تر افراد اردو زبان کے بنیادی اصولوں سے نہ صرف ناواقف ہیں بلکہ ذخیرۂ الفاظ کی قلت کا بھی شکار ہیں۔ موزوں اور مناسب الفاظ کے انتخاب کا جوہر ہر صحافی میں ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیے: اردو زبان کے بارے میں چند غلط تصورات

دوسری جانب الفاظ کا درست تلفظ بالخصوص الیکٹرونک شعبۂ خبر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اردو میں لکھی جانے والی اچھی کتب کا مطالعہ کسی بھی فرد کو زبان کے بنیادی اسرار و رموز سے آشنا کرتا ہے، مگر کتب بینی کی ثقافت ہمارے معاشرے سے ناپید ہوتی جارہی ہے، اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات بھی یقیناً اس تنزلی کا شکار ہیں۔

ہمیں چینلوں پر اکثر میزبان طویل سوالات کرتے نظر آتے ہیں جو پیشہ ورانہ مہارت کے خلاف ہے، لیکن اس کی وجوہ میں ذخیرۂ الفاظ کی کمی ہے اور یہ کمی کثرتِ مطالعہ سے دور ہوتی ہے۔

معروف اردو تاریخ دان ڈاکٹر سلیم اختر نے لفظ کی قدروقیمت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی کتاب 'اردوادب کی مختصرترین تاریخ' میں لکھا ہے کہ 'لفظ کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے، لہٰذا آدمی کی مانند اس کا احترام بھی لازم ہے۔ لیکن خود غرضی کی جس فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں اس کے باعث انصاف، اداروں اور قدروں کے ساتھ ساتھ لفظ بھی بے اعتبار ہوا، پہلے سیاستدانوں کے ہاتھوں، پھر مُلاؤں کے ہاتھوں، پھر صحافیوں اور ادیبوں کے ہاتھوں۔'

پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا معاشرہ زیادہ انگریزی زدہ ہے، مگر بھارتی ہندی چینلوں پر کثرت سے سنسکرت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ انگریزی اور بالخصوص اردو کے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتیں۔

اس کے برعکس پاکستانی اردو چینلوں پر آدھی اردو اور آدھی انگریزی بولنے کا رواج ہے۔ تفریحی چینلوں پر جو ڈرامے نشر کیے جاتے ہیں، ان میں تو کہیں کہیں کردار کے لحاظ سے اچھی اردو سننے کو مل جاتی ہے، مگر خبروں کے چینلوں پر گفتگو کے دوران آدھی اردو اور آدھی انگریزی کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔

کچھ انگریزی کے الفاظ ایسے بھی ہیں جو خبروں کے چینلوں پر کثرت سے اردو میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسےcategorically ،heading ، having said that ،short break ،political turmoil ،law and order ،parliament ،legislation یا legislator وغیرہ۔

معروف شاعر اور ماہرِ اردو لسانیات ساحر لکھنوی کے بقول 'بعض الفاظ اپنی اصل زبان سے دوسری زبانوں تک پہنچ کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں، ہم اسے الفاظ کی ہجرت کہتے ہیں۔' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک عمرانی عمل (social process) ہے جو از خود وقوع پذیر ہوتا ہے، مگر زبردستی ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ سامعین کے لیے سمع خراشی کا بھی سبب بنتا ہے۔

اردو میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال اس وقت زیادہ ضروری محسوس ہوتا ہے جب انگریزی لفظ کا کوئی مناسب اور جامع مترادف موجود نہ ہو۔ لیکن انگریزی لفظ categorically کا مترادف اردو میں 'دو ٹوک' ہے، جو زیادہ جامع اور زوردار لفظ ہے، مگر ہمارے چینلوں کے نمائندگان انگریزی الفاظ استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ شاید وہ انگریزی زبان سے مرعوب سامعین و ناظرین پر اپنا علمی رعب بٹھانا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: میری اردو بہت خراب ہے!

کسی بھی معاشرے میں نئی نسل کے لیے اس معاشرے میں رائج زبان سیکھنے کے بہتر مواقع خاندان، اسکول اور ان کے بعد ٹی وی چینلوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے خاندان اور تعلیمی ادارے کوئی واضح کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، جبکہ چینلوں نے تو نئی نسل کو اچھی اردو سننے کے مواقع دینے کے بجائے زبان کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ یقیناً یہ دانستہ عمل نہیں ہے، بلکہ علم و ادب سے دوری کا نتیجہ ہے۔

اس قومی المیے کے سدھار کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے مالکان کا بھی یہ سماجی فریضہ ہے کہ وہ اپنے اداروں میں ایسے افراد کی خدمات حاصل کریں جو اردو زبان پر عبور رکھتے ہوں، تاکہ کم ازکم ان کے نمائندگان کی زبان کی اصلاح ہو سکے۔

پیمرا کو چاہیے کہ وہ تمام چینلوں کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اور عوامی دلچسپی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اردو کے فروغ کے لیے مہینے میں کم از کم ایک یا دو پروگرام لازمی نشر کریں، تاکہ نئی نسل میں معیاری اردو سننے اور سمجھنے کا ذوق پیدا ہوسکے۔

سید جعفر عسکری

سید جعفر عسکری انگریزی اور اردو دونوں زبانوں سے منسلک ایک پیشہ ور صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ادبی اور سماجی حلقوں میں ان کی پہچان نہ صرف صحافی، بلکہ ایک شاعر کی حیثیت سے بھی ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: AskariJAFAR@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔