پاکستان

دہشت گردی کی لہر اور سعودی عرب پر تنقید میں اضافہ

پشاور کے حملے کے بعد یہ احساس مضبوط ہوا ہے کہ دہشت گردوں کو سعودی عرب سمیت بیرون ممالک سے سرمایہ فراہم کیا جارہا ہے۔

اسلام آباد: پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات طویل عرصے سے قائم ہیں، لیکن انتہاپسندی کی بنیادی وجوہات کے خلاف جنگ کے لیے اسلام آباد کے نئے عزم سے اس خلیجی ریاست پر غیرمعمولی تنقید دیکھنے میں آرہی ہے۔

یہ دونوں ممالک سنّی مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کے حامل ہیں، اور مذہبی تعلقات، تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب کی جانب سے اقتصادی امداد اور پاکستان کی سعودی عرب کو فوجی امداد کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔

لیکن دسمبر میں طالبان کے اسکول پر حملے میں 150 افراد کی ہلاکت، جس میں بچوں کی تعداد زیادہ تھی، حکومت نے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی اور مذہبی مدارس کو سخت کنٹرول کے تحت لانے کی بات کی جارہی ہے۔

اب ملکی میڈیا اور یہاں تک کہ حکومتی وزراء نے سعودی عرب سے مذہبی مدرسوں کو ملنے والی امداد جو پر سوال کھڑے کرنے شروع کردیے ہیں، ان مدرسوں سے پُرتشدد انتہاء پسندی کو فروغ مل رہا ہے۔ ایسے سوالات سے پہلی مرتبہ ان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہورہی ہے۔

گزشتہ ہفتے سعودی سفارت خانے نے ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ مدرسوں کو دیے جانے والے تمام عطیات کو حکومت کی منظوری حاصل ہے۔ یہ بیان ایک وزیر کے بیان کے جواب میں جاری کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے ریاض کی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ مسلم دنیا میں عدم استحکام پیدا کررہی ہے۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ نے ایک ردّعمل میں کہا تھا کہ نجی افراد کی جانب سے ’غیررسمی چینلز‘ کے ذریعے آنے والی امداد کی بھی سنجیدگی کے ساتھ جانچ کی جائے گی، تاکہ دہشت گرد گروہوں کی فنڈنگ کا راستہ روکا جاسکے۔ جبکہ اس بیان میں خاص طور پر سعودی عرب کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا گیا تھا، تاہم پھر بھی اسے بڑے پیمانے پر ایک سرزنش کے طور پر پیش کیا گیا۔

مدارس سے قطع نظر سعودی شہزادوں کو تغدار تلور کے شکار کی اجازت دینے کے فیصلے کو بھی بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جنوبی صوبے سندھ اور بلوچستان میں پائے جانے والے اس پرندے کے گوشت کی خصوصیات کو مشرقِ وسطیٰ میں قوتِ مردمی میں اضافے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

ایک عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکام نے معدومیت کے شکار اس پرندے کے شکار کی اجازت دی تھی، جسے فطرت کے تحفظ کی بین الاقوامی یونین نے خطرے کا شکار انواع کی فہرست میں شامل کررکھا ہے۔

اس اقدام سے بھی ان الزامات کو تقویت ملی ہے کہ حکومت نے ریاض سے اپنے نفع بخش اور قیمتی تعلقات پر اپنی جنگلی حیات کو قربان کردیا ہے۔

دہشت گردی میں سرمایہ کاری

سعودی عرب میں موجود عطیہ کنندگان پر طویل عرصے سے یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ دہشت گرد گروہوں کو امداد دے رہے ہیں، تاکہ سنی اسلام کے سعودی عرب کے سخت گیر ورژن کے لیے حمایت حاصل کرسکیں۔

2009ء میں رہی امریکا کی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کی جانب سے ایک سفارتی پیغام کا انکشاف کیا گیا تھا، جس کے مطابق سعودی عرب کے عطیہ کنندگان دنیا بھر میں سنّی دہشت گرد گروہوں کی فنڈنگ کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔

لیک ہونے والی اس کیبل میں طالبان، القاعدہ اور پاکستان کے سنّی مسلم عسکریت پسند لشکرِ جھنگوی کی مثال دی گئی تھی، جو اس ذریعے سے فنڈز حاصل کررہے ہیں۔

سعودی عرب کی اس فنڈنگ کو جغرافیہ حکمت عملی کی جدوجہد کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے، جو ایران کے ساتھ طویل عرصے سے جاری ہے۔ ایران اس خطے میں شیعہ مسلمانوں کی ایک اہم طاقت ہے۔

پاکستان کے موجودہ وزیراعظم نواز شریف کے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ساتھ خصوصی قریبی تعلقات ہیں۔

یاد رہے کہ فوجی حکمران پرویز مشرف کی جانب سے ان کا تختہ الٹنے کے بعد انہوں نے تقریباً ایک دہائی پر مشتمل طویل جلاوطنی سعودی عرب کے شاہی خاندان کی میزبانی میں گزاری تھی۔

اور پچھلے سال نواز حکومت نے کہا تھا کہ اس کو ایک برادر مسلم ملک سے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی رقم بطور ’تحفہ‘ موصول ہوئی ہے۔ ماہرین کی بڑی تعداد کا خیال تھا کہ یہ درحقیقت سعودی عرب کی جانب سے قرض دیا گیا ہے۔

سابق سیکریٹری خارجہ اور سفارتکار نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ دسمبر میں پشاور میں آرمی اسکول پر حملہ، جس میں 134 بچوں سمیت 153 افراد ہلاک ہوئے،نے تنقید کا دروازہ کھول دیا ہے۔

انہوں نے کہا ’’اس بات کو پشاور کے حملے نے متحرک کیا، اور ایک مضبوط احساس پیدا ہوا کہ یہاں موجود دہشت گردی کو زیادہ تر باہر کے ملکوں سے سرمایہ فراہم کیا جارہا ہے۔‘‘

نجم الدین شیخ نے کہا کہ کویت، متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرح اس میں کمی کے لیے اندرونی طور پر لازماً کوشش کی جائے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ انتہاپسند مدرسوں کے لیے غیرملکی امداد کو روکنے کی کسی بھی کوشش ملکی سطح پر متحد ہوکر کوشش کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس موقع پر ریاست کو پراکسی گروپس کے ساتھ اپنے روابط ختم کرنے ہوں گے، جنہیں ماضی میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے افغانستان اور ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں مزید اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا ’’پاکستان کے اندر فنڈنگ بلارکاوٹ جاری رہتی ہے، اگر آپ بیرون ملک سے زیادہ کچھ چاہتے ہیں تو آپ کو ملک کے اندر اس سے زیادہ کرنا ہوگا۔‘‘

ایک سینئر حکومتی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا۔ ’’ہمیں قدامت پرست بنانے میں سعودیوں کا اتنا ہاتھ نہیں، ہم نے خود اپنے آپ کو ایسا بنایا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ موجودہ رویّہ ریاض کے لیے اہم ہوسکتا ہے، جس سے طویل عرصے سے چلے آرہے کہیں زیادہ اہم اور بہت مفید تعلقات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ نواز شریف کی حکومت اور فوج دونوں ہی سعودی عرب کے ساتھ بہت زیادہ قریب ہیں۔ اصل پالیسی میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔‘‘