پاکستان

نایاب پرندوں کے شکار کے اجازت نامے عدالت میں چیلنج

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک ماہرِ ماحولیات کی درخواست میں وزارتِ خارجہ امور کو مدعاعلیہ نامزد کیا گیا ہے۔

اسلام آباد: نقلِ مکانی کرکے آنے والے نایاب پرندے تغدار تلور کا شکار کرنے کے لیے جاری لائسنس کو ایک ماہرِ ماحولیات نے بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

ماہرِ ماحولیات وحید محمود خان نے اپنے وکیل یاسر چوہدری کے ذریعے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ حکومتی اہلکاروں کو نقلِ مکانی کرکے آنے والے پرندوں کے شکار کے لیے غیرملکی شخصیات کو لائسنس اور اجازت نامے جاری کرنے سے روکےکی ہدایت کرے۔

مدعی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے پیش کی گئی درخواست میں کہا ہے کہ تغدار تلور کے شکار پر پاکستان میں اس وقت پابندی عائد کردی گئی تھی، جب اس پرندے کو بین الاقوامی طور پر اس کے تحفظ کے لیے کوششوں کا آغاز ہوا تھا۔

اس کو خطرے سے دوچار اور معدوم ہوتی ہوئی انواع میں شمار کیا جاتا ہے، اور یہ جنگلی حیات اور نقل مکانی کرنے والی انواع کے کنونشن کی فہرست میں بھی شامل ہے، جسے بون کنونشن بھی کہا جاتا ہے۔ اس پٹیشن میں وزارتِ خارجہ کو مدعاعلیہ نامزد کیا گیا ہے۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے اس پٹیشن پر اعتراض کرتے ہوئے درخواست گزار کو ہدایت کی تھی کہ اس درخواست کے ساتھ متعلقہ اجازت ناموں یا لائسنسوں کی نقل منسلک کریں۔

بدھ کے روز درخواست گزار کے وکیل نے دلیل دی کہ یہ لائسنس غیرملکی شخصیات کو جاری کیے گئے تھے، اور لائسنس کے ریکارڈ تک درخواست گزار کی رسائی نہیں ہے۔

چنانچہ عدالت نے اس اعتراض کو ختم کردیا اور درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرلیا۔ اس درخواست کی اگلے ہفتے سماعت کی جائے گی۔

اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ جنگلی حیات کی اہمیت کو سمجھنے اور ان سے پیار کرنے کی وجہ سے غیرملکی شخصیات کو اجازت نامے دیے جانے سے درخواست گزار کو دلی صدمہ پہنچا ہے، انہیں نقلِ مکانی کرنے والے پرندوں کے شکار کی اجازت آئین اور جنگلی حیات کے تحفظ کے ملکی قانون کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسمِ سرما کے دوران پاکستان تغدار تلور کا وطن تصور کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی موسمِ سرما شروع ہوتا ہے، یہ تلور وسطی ایشیا، روسی سائبیریا اور منگولیا کے علاقوں سے یہاں آتے ہیں، اس لیے کہ وہاں درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے۔ یہ پرندے مارچ اور اپریل میں اپنے آبائی علاقوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔

پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ہر سال غیرملکی شخصیات پاکستان کا دورہ کرتی ہیں، اور وزارتِ خارجہ امور سے شکار کے اجازت نامے حاصل کرلیتی ہیں، اس کے باوجود کہ معدومیت سے دوچار اس نوع کے شکار پر مکمل پابندی ہے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ خصوصی شکار کے لائسنس اور اجازت ناموں کو غیرقانونی قرار دیا جانا چاہیے۔

درخواست میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اجازت نامے حاصل کرنے والے غیرملکی بعض اوقات اپنے ساتھ باز لے کر آتے ہیں، تاکہ تغدار تلور کا شکار کرسکیں۔

اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ جوابدہ وزارت بازوں کی عارضی درآمد اور دوبارہ برآمد کے اجازت نامے بھی جاری کرتی ہے۔