دنیا

سعودی افرادی قوت میں خواتین کا 13 فیصد حصہ

سعودی محکمہ شماریات کے مطابق گریجویشن کرنے والے نوجوانوں میں خواتین کی تعداد 51 فیصد تک ہے۔

دمّام: سعودی عرب کے مرکزی محکمہ شماریات و اطلاعات کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق گریجویشن کرنے والے سعودی نوجوانوں میں خواتین کی 51 فیصد تعداد ہونے کے باوجود سعودی خواتین صرف 13 فیصد نجی اور سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق محکمہ کے اعدادوشمار میں سعودی عرب اور غیرملکی یونیورسٹیوں میں انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی دونوں سطح کے امیدواروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

اس اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں 2010ء، 2011ء اور 2012ء کے دوران سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں سے بیچلر ڈگری حاصل کرنے والے گریجویٹس میں خواتین کی تعداد 64 فیصد تھی۔

ماہرین سعودی خواتین کے سعودی عرب کی افرادی قوت میں کمتر تناسب کا سبب سماجی روایات اور کچھ شعبوں میں خواتین عملے کے لیے کام کے نامناسب ماحول کو قرار دیتے ہیں۔

عرب سوسائٹی برائے ہیومن ریسورسز مینجمنٹ کے ایک ماہر نواف الضبیب کہتے ہیں کہ سعودی معاشرے میں خواتین کے کام کرنے کا تصور اب بھی نیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہماری معاشرتی ترقی کے اس مرحلے پر خواتین اور مرد گریجویٹس کا موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔‘‘

’’بہت سی خواتین گریجویٹس جو کسی روزگار سے منسلک نہیں ہیں، انہوں نے خود ہی گھر پر رہنے کا انتخاب کیا ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری حکام کی جانب سے مداخلت کی ضرورت ہے، جو سعودی عرب کے تمام شعبوں میں خواتین کے لیے روزگار کے راستے کھولیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان دنوں خواتین اپنی آمدنی کے ذریعے اپنے خاندان کی مدد کرنا چاہتی ہیں، یہ سماجی رجحان اس سے پہلے موجود نہیں تھا۔

نواف الضبیب نے کہا’’شوہر اور بیوی دونوں کی آمدنی گھرانے کے لیے لازمی ضرورت بن گئی ہے۔ یہ رجحان خواتین کے گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گا، اور سعودی عرب کی جاب مارکیٹ میں خواتین کے لیے مزید قبولیت پیدا ہوگی۔‘‘

ان کا خیال ہے کہ خدمات اور طبّی شعبوں میں خواتین کے لیے مزید ملازمتیں فراہم کی جائیں گی، خاص طور پر وزارتِ صحت کے نئے توسیعی منصوبوں میں۔

’’نجی شعبے میں سرکاری شعبے کے مقابلے میں خواتین کی بھرتی کی رفتار نسبتاً تیز ہے، اس لیے کہ نجی شعبے کی انتظامیہ ملازمین کی قابلیت اور ادارے کو ان کی خدمات پر سرمایہ کاری کرتی ہے۔‘‘

سعودی شوریٰ کونسل کی انسانی وسائل کی کمیٹی کے ایک رکن محمد الخنیزی کہتے ہیں کہ سعودی افرادی قوت میں خواتین کا حصہ یقیناً کم ہے، لیکن سعودینائزیشن کے جعلی پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے جسے سعودی باشندوں نے متاثر کیا ہے، وہ ایک معمولی فیس کی ادائیگی کرکے گھر بیٹھ جاتے ہیں، چنانچہ یہ اعدادوشمار غلط ہیں۔

انہوں نے کہا ’’وزارتِ محنت کو خواتین کے کام کرنے کے لیے درست ماحول کے تعین کی ضرورت ہے۔ اس میں خواتین کے تحفظ کے لیے اور ان کے خوف کو دور کرنے کے لیے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف قانون سازی بھی شامل ہے۔‘‘

محمد الخنیزی نے کہا کہ ’’خواتین کو تمام شعبوں میں ملازمت دینے سے پہلے بہت سی اصلاحات نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘