پاکستان

دہشت گردی نظرانداز، سیاستدان آپسی جنگ میں مصروف

مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتوں نے الزامات کی سیاست شروع کردی ہے۔ اور حقیقی مسائل پر کوئی بات چیت نہیں ہورہی ہے۔

چھ ہفتے پہلے عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف سب کچھ ختم ہوتے ہوئے اور جیت کی لہر کو اُبھرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ لیکن سولہ دسمبر کو پشاور میں رونما ہونے والے سانحے نے ہر جگہ اور ہر ایک کے لیے چیزوں کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔

پاکستانی طالبان کی طرف سے اسکول کے ایک سو پچاس بچوں اور ٹیچروں کے قتل عام نے جنونی عسکریت پسندوں سے نجات کے معاملے پر قوم کو متحد کردیا۔ سیاسی مشاورت اور قانون سازی کے عمل میں تیزی پیدا ہوگئی۔

سب سے بڑھ کر پہلی مرتبہ اس مسئلے کے حل کے لیے تمام فریقین نے ایک سیاسی عزم کا اظہار کیا۔

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہ اتفاق رائے جنوری کے وسط تک پرانے رویے میں تبدیل ہوگیا اور روایتی تکرار شروع ہوگئی۔

مرکزی دھارے میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نےاب معمول کے مطابق دوبارہ الزامات کی سیاست شروع کردی ہے۔ اور حقیقی مسائل پر کوئی بات چیت نہیں ہورہی ہے۔

اقتدار کے حالیہ کھیل میں کپتان عمران خان پی ٹی آئی کی قیادت کرنے کے لیے اپنی پرانی پچ پر واپس آگئے ہیں۔ یہ کھیل سینیٹ کی 52 سیٹوں کے انتخابات ہیں، جو ہر تین سال بعد منعقد ہوتے ہیں۔

لیکن ان کی پارٹی ان انتخابات میں صرف خیبرپختونخوا اسمبلی میں ہی ووٹ ڈال سکے گی، جہاں اس کی حکومت ہے۔ جبکہ قومی اسمبلی میں اس کے اراکین اس لیے ووٹ نہیں ڈالیں گے کہ ان کے خیال میں یہ اسمبلی دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے وجود میں آئی تھی۔

اسی دوران وزیراعظم نواز شریف، جنہیں اب پی ٹی آئی کے ناموافق نعرے ’گو نواز گو‘ کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے، سینیٹ میں بھی پی ایم ایل این کا کنٹرول حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ جبکہ قومی اسمبلی میں اس حکمران جماعت کو مطلق اکثریت حاصل ہونے کے باوجود نہایت ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے اتحادیوں کی مدد سے سینیٹ میں اکثریت حاصل کرلے گی، اور پی ٹی آئی کو اپنے مضبوط گڑھ سے پانچ سینیٹر مل جائیں گے۔

پیپلزپارٹی اگرچہ مئی 2013ء کے انتخابات میں بظاہر سندھ تک محدود ہوگئی تھی، تاہم اب اس کو کچھ بہتری کی امید ہے، البتہ تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں زیادہ سیٹیں نہیں مل سکیں گی۔

وہ پنجاب پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہے، جسے ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کا مرکز کہا تھا۔

جنرل ضیاء الحق کی جانب سے 1977ء میں بھٹو کا تختہ الٹنے تک ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے والی پیپلزپارٹی نے 2008-2013ء کے دوران پنجاب سے قومی اسمبلی کی پچاس سیٹیں حاصل کی تھیں۔ لیکن حالیہ قومی اسمبلی میں پنجاب سے اس کے پاس صرف تین رکن قومی اسمبلی ہیں۔

پس منظرے میں جاری مباحثوں میں پنجاب سے پیپلزپارٹی کے رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے۔

لیکن وہ امید رکھتے ہیں کہ اگلے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی دوبارہ اقتدار میں واپس آئے گی۔ خیر جو وجوہات وہ پیش کرتے ہیں، اب تک ان کا تجربہ ہونا باقی ہے۔

مثال کے طور پر پیپلزپارٹی کے ایک سینئر عہدے دار دلیل دیتے ہیں کہ ملک کو انتخابات کے لیے تین سال کا طویل انتظار کرنا ہوگا۔ اس عرصے میں مسلم لیگ ن کو ووٹروں سے کیے ہوئے وعدے پورے کرنے ہوں گے، جو اس نے 2013ء کے انتخابات کے دوران کیے تھے اور پی ٹی آئی کو اپنی مقبولیت کا گراف برقرار رکھنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بجلی کا بحران تھا جس نے پنجاب سے پی پی پی کا صفایا کردیا۔ اب لوگ مسلم لیگ ن سے بجلی کے شعبے میں بہتر انتظام کی توقع رکھتے ہیں۔ جس نے لوڈشیڈنگ میں کمی کرنے کے بجائے میگا منصوبوں کے بارے میں بات کی ہے، جبکہ لوگوں نے بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ ہوتے ہی دیکھا ہے۔

جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو وہ اس سطح تک پہنچ نہیں سکتی، اس لیے کہ اس نے شریف برادران کے استعفے کے مطالبے کو ترک کردیا ہے۔ دونوں فریقین پی ٹی آئی کےدوسرے مطالبے پر کھینچا تانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ مطالبہ عدالتی کمیشن کے قیام کا ہے، جو 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی تحقیقات کرےگا۔

اور اب سینیٹ کے انتخابات میں حصہ شرکت کے فیصلے کے بعد وہ پارلیمنٹ کا حصہ بن جائے گی، لیکن قومی اسمبلی سے باہر رہے گی، جہاں اس کی حقیقی طاقت مضمر ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما نے واضح کیا کہ اس سے پی ٹی آئی کی قیادت غیرتسلی بخش سوچ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا ’’پی ٹی آئی کے اندر بھی بہت سے لوگ اس فیصلے کی حکمت کے حوالے سے سوالات کررہے ہیں ۔‘‘

پیپلزپارٹی کے اعلیٰ سطح کے رہنما مقابلے کی تیاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ہفتے پیپلزپارٹى کے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف نے ایک موازنہ پیش کیا کہ کس طرح ان کی حکومت نے عالمی مارکیٹ میں تیل کی 120ڈالرز فی بیرل کی انتہائی قیمتوں کے باوجود ٹیکس کو ہلکا رکھا تھا۔

اب مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں ٹیکس میں پچاس فیصد تک مزید اضافہ کیا گیا ہے، جب کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل پچاس فیصد سے کم قیمت پر فروخت ہورہا ہے۔

پیپلزپارٹی کے ایک اور رہنما نے یاد دلایا کہ جب 1997ء میں مسلم لیگ ن نے دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی تو پی پی نے لوگوں کے ساتھ اپنے رابطوں کو کھو دیا تھا۔

لیکن پانچ سال کے بعد 2002ء کے عام انتخابات میں دوبارہ منظرعام پر آگئی، جو جنرل مشرف کی فوجی حکومت نے منعقد کروائے تھے، اور اس کے بعد 2008ء میں اقتدار حاصل کرلیا۔

پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ایک مشیر ندیم افضل چن نے ڈان کو بتایا کہ ان کی پارٹی پنجاب میں دوبارہ منظم ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا ’’ہم نے اسٹیبلشمنٹ کی قوتوں کے ساتھ ماضی میں بھی کامیابی سے جنگ لڑی ہے، اور آئندہ بھی لڑتے رہیں گے۔‘‘

ندیم افضل چن نے بھرپور اعتماد کے ساتھ کہا ’’تین سال باقی ہیں، ہماری پارٹی پر تنقید کرنے والے پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت کی کارکردگی کی شرح کو مسلم لیگ ن کے موجودہ حکمرانوں سے بہتر قرار دیں گے۔‘‘

’’جی ہاں، بجلی کے بحران (2013ء کے انتخابات میں) ہماری شکست کا سبب تھا ، لیکن عوام مسلم لیگ ن کو اچھی طرح دیکھ لے گی جس نے ہمارے رینٹل پاور اور ایل این جی کے منصوبوں کو دھچکا پہنچایا تھا۔‘‘

عام طور پر پی پی پی کا کیمپ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان رسہ کشی کے امکانات دیکھ رہا ہے اور اس کے نتائج سے فائدہ اٹھانے کی امید لگائے ہوئے ہے۔

ندیم افضل چن نے کہا ’’وقت آنے والا ہے کہ ہم دوبارہ اسٹیج پر آجائیں گے۔ ہمیں یہ بات یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری حمایت کی بنیادیں اب بھی یہاں موجود ہیں۔‘‘