'زندہ جلائی جانے والی مسیحی خاتون حاملہ تھی'
قصور: پولیس نے بدھ کے روز کوٹ رادھا کشن سے پچاس دیہاتیوں کو گرفتار کیا ہے، جو اس ہجوم کا حصہ تھے، جس نے قرآن پاک کے صفحات کی بے حرمتی کے الزام میں ایک مسیحی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے میں پھینک کر زندہ نذرِآتش کردیا تھا۔
معلوم ہوا ہے کہ وہ تین بچوں کی ماں حاملہ تھی۔
ضلع قصور کے پولیس آفیسر جواد قمر نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کی اور کہا کہ ایک مقامی مذہبی رہنما نے اس معاملے کو ہوا دی تھی۔ لیکن ڈی پی او نے اس کا نام ظاہر نہیں کیا۔
پولیس اور عینی شاہدین نے ڈان کو بتایا کہ منگل کے روز مساجد سے ہونے والے اعلانات میں گاؤں کے لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ یوسف اینٹوں کے بھٹے پر اکھٹا ہوں، جہاں پچیس برس کی شمع اور اس کا شوہر شہزاد مسیح غلامانہ مزدوری کرتے تھے۔
تین گاؤں سے ایک ہزار سے زیادہ مشتعل افراد کا ہجوم اس کمرے کے پاس پہنچا، جہاں اس مسیحی جوڑے نے پناہ لی ہوئی تھی، انہوں نے اس کمرے کی چھت توڑ کر انہیں وہاں سے نکالا۔ ہجوم نے اس جوڑے کو اینٹوں کی بھٹی میں پھینکنے سے پہلے ان پر تشدد بھی کیا۔
اس ہجوم نے پولیس کے پانچ اہلکاروں کو بھی یرغمال بنالیا، جو اس جوڑے کو بچانے کی کوشش کررہے تھے۔ ان دیہاتیوں نے میڈیا کے کچھ لوگوں کو بھی پکڑ لیا، اور ان کے کیمرے چھین لیے۔
وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے اس واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے۔
وزیراعلٰی نے اس معاملے کی تفتیش کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، جو اقلیتی امور کے سیکریٹری، وزیراعلٰی کی انسپکشن ٹیم کے چیئرمین اور ایڈیشنل آئی جی پر مشتمل ہے۔
شہباز شریف کی ہدایات پر قصور پولیس نے اس گاؤں میں اور کلرکاآباد میں مسیحی برادری کی سیکورٹی میں اضافہ کردیا ہے، جہاں زیادہ تر مسیحی آباد ہیں۔ یہ سانحہ جس علاقے میں رونما ہوا، وہ چک 59 سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
پولیس نے660 دیہاتیوں کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کرلیا ہے، جس میں وہ 60 افراد بھی شامل ہیں، جنہیں اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ چک 59 اور کلرکاآباد جانے والے تمام راستوں کو پولیس نے بند کردیا ہے۔
چک 59 میں مسیحیوں کے تقریباً بارہ گھر ہیں،اور جب نمائندہ ڈان بدھ کے روز وہاں پہنچا تو یہ تمام رہائشی اب یہ گاؤں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
مقامی مسلم آبادی بھی ان دیہاتوں کو چھوڑ گئی ہے، اس لیے کہ پولیس ان کے گھروں پر چھاپے مار رہی تھی۔
یہ گاؤں ویران دکھائی دیا، اور کچھ عارضی دکانوں پر مشتمل اس کا واحد بازار بھی بند تھا۔
اس گاؤں کے کئی اطراف پولیس تعینات تھی۔
چوکی فیکٹری ایریا کے سب انسپکٹر محمد علی کی شکایت پر درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق پولیس کو یہ اطلاعات ملیں کہ دیہاتی ایک مسیحی خاتون اور اس کے شوہر پر تشدد کر رہے ہیں۔
پانچ اہلکاروں پر مشتمل پولیس کی ٹیم اس مقام پر پہنچی، لیکن تقریباً 600 مشتعل دیہاتیوں پر مشتمل ہجوم نے اس کمرےکو گھیرے میں لے رکھا تھا، جہاں شمع اور شہزاد مسیح نے ہجوم کے ڈر سے پناہ لے رکھی تھی۔
کچھ دیہاتیوں نے اس کمرے کی چھت کو توڑ دیا اور اس جوڑے کو زبردستی باہر نکال لیا۔
یہ ہجوم انہیں گھسیٹتے ہوئے بھٹی کے پاس لگے گیا، جہاں بھٹی کا مالک محمد یوسف گجر اور اس کامنشی شکیل اور افضل سمیت 18 ملزمان موجود تھے۔ مبینہ طور پر انہوں نے دہکتی ہوئی بھٹیوں میں سے ایک کا ڈھکن ہٹایا اور اس جوڑے کو اس کے اندر پھینک دیا۔
ایف آئی آر کا کہنا ہے کہ ’’شمع اور شہزاد دونوں کو راکھ میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔‘‘
یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھٹے کے مالک اور اس کے ملازمین سمیت ایف آئی آر میں نامزد ملزمان نے چک 59، چک 60، چک روسہ اور چک بھیل میں مساجد کے ذریعے اعلانات کرواکے دیہاتیوں کو تشدد پر اکسایا تھا۔
ان ملزمان نے مسیحی جوڑے کو زندہ جلادیا، پولیس اہلکاروں کے ساتھ مارپیٹ کی اور ہجوم کو جنون پر اکسایا۔
کوٹ رادھا کشن پولیس اسٹیشن نے یہ مقدمہ دفعہ 302، 436، 201، 148، 149، 353 اور پی پی سی کی دفعہ 186 اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت درج کیا ہے۔
بدھ کے روز پولیس نے انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت کے سامنے گرفتار کیے گئے 43 افراد کو پیش کیا، جن میں سے چار کو ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا، جبکہ باقی 39 کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
ایک مقامی مسلم رہائشی بلقیس نے ڈان کو بتایا کہ شمع اس گاؤں میں صائمہ کے نام سے جانی جاتی تھی، اس کی شادی شہزاد مسیح سے تقریباً آٹھ سال پہلے ہوئی تھی۔ دو سے سات سال کے درمیانی عمر کے ان کے تین بچے تھے۔
انہوں نے کہا کہ شمع اس سانحےکے وقت حاملہ تھی۔ شمع کے سسر نذیر مسیح ایک عامل تھے، اور چند ہفتے قبل ان کی وفات ہوئی تھی۔ ان کی وفات کے بعد شمع نے ان سے متعلق کچھ چیزیں جن میں کاغذات بھی شامل تھے، جلادیے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شمع ان پڑھ تھی۔
بلقیس کا کہنا تھا کہ ایک پھیری والا جب اس بھٹی سے گزرا تو اس کو وہاں قرآن پاک کے کچھ صفحات ملے، اور اس نے یہ صفحات گاؤں والوں کو دکھائے۔ بعد میں منگل کی صبح ہزاروں دیہاتی اس بھٹے پر اکھٹا ہوئے اور شمع کی بات سنے بغیر اس جوڑے کو زندہ جلادیا۔
انہوں نے بتایا ’’وہ چلاتی رہی کہ وہ نہیں جانتی کے ان کاغذات میں کیا لکھا ہے، لیکن کسی نے اس کی بات نہیں سنی۔‘‘
بلقیس کے خاندان کے ایک رکن عبدالشکور کا کہنا تھا کہ ہجوم نے جو کچھ کیا اس کو کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس نوجوان جوڑے کے ساتھ اس کا سلوک وحشیانہ اور غیرانسانی تھا۔
بھٹہ مالکان کی آل پاکستان تنظیم کے جنرل سیکریٹری مہر عبدالحق نے ڈان کو بتایا کہ اس بھٹے کے مالک کو جسے اس مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے، حالانکہ وہ اس سانحہ کے موقع پر موجود نہیں تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی شفاف انکوائری کی جائے۔
اسی دوران مسیحی برادری کے افرد نے کوٹ رادھا کشن میں بدھ کے روز ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔