پاکستان

گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ، مہنگائی کے مزید بحران کا خدشہ

ن لیگ کسانوں کو بہتر منافع کی پیشکش کرکے پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسلام آباد: اس اختتامِ ہفتہ کے دوران حکومت نے ایک جانب تو گندم کی امدادی قیمت میں بارہ سو روپے فی 40 کلوگرام سے اضافہ کرکے اس کو 13 سو روپے کردیا ہے، اور دوسری جانب اجناس کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں بیس فیصد کا اضافہ بھی کردیا ہے۔

حالانکہ حکومت کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ یہ فیصلہ دیہی علاقوں میں کاشتکاروں کی مدد کرے گا۔ تاہم کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ اقدام بہت سے خطرات بھی ساتھ لائے گا، جس سے کاشتکار اور صارفین دونوں ہی ایسی صورتحال سے دوچار ہوسکتے ہیں، کہ ان کے پاس نہ کھونے کے لیے کچھ ہوگا، اور نہ ہی وہ کچھ پاسکیں گے۔

کچھ نے اس فیصلے کو سیاسی مفاد کے تحت قرار دیا، جبکہ دیگرنے اس کو شہری علاقوں میں صارفین کے لیے غیرمنصفانہ قرار دیا۔

پائیدار ترقیاتی پالیسی انسٹیٹیوت کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالقیوم سلہری کہتے ہیں کہ اس فیصلے کے نفاذ سے دیہی علاقوں کے چھوٹے کاشتکاروں کی آمدنی میں اضافہ ہوسکے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں خوراک کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

جب پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت نے اسی طرح کا فیصلہ کیا تھا تو بھی ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔

ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ امدادی قیمت میں اضافے کے ساتھ مہنگی کھاد، کیڑے مار ادویات اور آڑھتیوں کے منافع میں اضافے کی وجہ سے کاشتکاروں کی پیداواری لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ آخر میں کاشتکار کو مطلوبہ منافع نہیں ملتا۔

لیکن امدادی قیمت میں اضافہ یقینی طور پر صارفین کو متاثر کرتا ہے، جنہیں آٹا خریدنے کے لیے کہیں زیادہ ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

ڈاکٹر عبدالقیوم سلہری نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر مسلم لیگ ن کاشتکاروں کو بہتر منافع کی پیشکش کرکے خصوصاً جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

سابق وفاقی وزیر تجارت و کاروبار ہمایوں اختر خان کی رائے میں یہ فیصلہ اپنے تمام عملی مقاصد کے ساتھ ملک میں صرف مہنگائی میں اضافہ کرے گا۔ ’’میں پوری طرح سے کاشتکاروں کے لیے بہتر قیمت کے حق میں ہوں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ صارفین کے ساتھ بھی ایک منصفانہ برتاؤ کیا جانا ضروری ہے۔‘‘

اس فیصلے سے مہنگائی کی سطح کیا ہوگی، اس کی وضاحت کرتے ہوئے ہمایوں اختر خان نے کہا کہ حکومت کی جانب سے گندم کی درآمدی قیمت پر بیس فیصد ڈیوٹی کا نفاذ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اجناس عالمی منڈی میں سستی قیمت پر دستیاب ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن اس فیصلے کا اعلان کرکے حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ آخری صارف کے لیے گندم کی قیمت کو کس طرح کنٹرول کرے گی۔

معاشی ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک بہتر امدادی قیمت کاشتکاروں کو ان کی سالانہ آمدنی کے اضافے میں مدد کرے گی، لیکن اس کو صارفین کے لیے گندم کی انتہائی گراں قیمتوں کے تناظر میں بھی دیکھا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’میں ذاتی طور پریقین رکھتا ہوں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ یوٹیلیٹی اسٹورز کی اصلاح کرے، جہاں عوام مقررہ قیمت پر آٹا خرید سکیں۔‘‘ دوسری صورت میں اربوں روپے کی یہ امداد جسے حکومت عوام کو فراہم کرنا چاہتی ہے، درمیان میں ہی کہیں ضایع ہوجائے گی۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ کئی برسوں کے دوران عام لوگوں کی فلاح کے حوالے سے سرکاری شعبے نے اپنے کردار کو محدود کرلیا تھا اور انہیں سرمایہ دارانہ قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔