دنیا

امریکی صدارتی محل سے مشابہ عراقی شہری کا گھر

کردستان کی کاروباری شخصیت کے اس گھر کی تعمیر چار ماہ میں مکمل ہوجائے گی، جس میں وہ اوباما کے برعکس عمر بھر رہ سکیں گے۔

عراق: کردستان کے مرکزی شہر اربیل میں مقیم ایک کرد کاروباری شخصیت امریکی صدارتی محل وائٹ ہاؤس کے حسن اور سادگی سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اپنے شہر میں 20 ملین ڈالر کی مالیت سے وائٹ ہاؤس سے مشابہ ذاتی گھر کی تعمیر شروع کروادی ہے۔

امریکی خبررساں ادارے بلوم برگ نیوز کو کرد کاروباری شخصیت شہاب نے بتایا کہ انہوں نے ہمیشہ سے واشنگٹن کی پینسلوانیا ایونیو پر موجود وائٹ ہاؤس کی سادگی اور خوبصورتی کو ہمیشہ سراہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی صدر براک اوباما کو عہدۂ صدارت کی مدت پوری ہونے پر وائٹ ہاؤس چھوڑ کر اپنے گھر واپس جانا پڑے گا، مگر وہ اس گھر میں عمر بھر رہ سکیں گے۔

شہاب نے بتایا کہ امید ہے کہ ان کا گھر آئندہ چار مہینوں میں مکمل ہوجائے گا اور یہ اربیل کے ڈریم سٹی کمپاؤنڈ میں تعمیر کیا جارہا ہے۔ کردستان کے شہر اربیل میں اس طرز کے کئی پرتعیش کمپاؤنڈ موجود ہیں۔

واضح رہے کہ اربیل شہر سے صرف چند میل کی دوری پر انتہاپسند گروپ دولت اسلامی عراق و شام (داعش)یا آئی ایس آئی ایس کا کنٹرول قائم ہے۔

لیکن شاپنگ مالز اور دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری سے اثاثے بنانے والے شہاب اس حوالے سے زیادہ فکرمند نہیں ہیں۔

وائٹ ہاؤس سے مشابہ اس گھر میں پانچ باتھ رومز، 140 سکوائر میٹر کا بیڈروم اور ایک نجی فلم تھیٹر بھی تعمیر کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ شہاب نے اپنے گھر کی تعمیر میں ایک اضافہ بھی کیا ہے، جس کی سہولت اوباما کو بھی میسر نہیں ہے، اور وہ ہے ’’ترک حمام‘‘۔

انہوں نے بلومبرگ کو بتایا کہ ’’ایسا حمام وائٹ ہاؤس میں بھی موجود نہیں۔‘‘

شہاب کو توقع ہے کہ کردستان میں حالات سدھر جائیں گے۔ ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے نازہ مال کو عراق کے پہلے 67 منزلہ رہائشی اور تجارتی ٹاور میں تبدیل کردیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسائل عارضی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ شمالی کردستان کا علاقہ وسطی عراق کے برعکس ترقی کی طرف گامزن ہے، جہاں آئی ایس کے عسکریت پسندوں کے کنٹرول اور ان کے حملوں کی وجہ سے اقتصادی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔

کردستان عراق کا خود مختار علاقہ سمجھا جاتا ہے، اس کے دارالحکومت اربیل میں کے لوگوں میں کوئی خوف وہراس نہیں دیکھنے میں آتا ہے۔ اسی لیے اس علاقے میں غیر ملکی سرمایہ کار بھی انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہاں گزشتہ سال اقتصادی نمو کی شرح بارہ فیصد تھی۔

یہاں تقریباً آٹھ سو غیرملکی کمپنیاں کام کررہی ہیں، جن میں سے زیادہ تر ہمسایہ ملک ترکی سے تعلق رکھتی ہیں۔