دنیا

ایشیا میں صحت کا ناقص نظام، ایبولا پھیلنے کا خطرہ

ایشیا کے ترقی پذیر ممالک میں ماہرین صحت کو خدشہ ہے کہ اس وائرس کا پھیلاؤ مہلک ہو گا اور اس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔

سنگاپور: مغربی افریقہ میں جس قدر طویل عرصے تک ایبولا وائرس کی ہلاکت خیزی قائم رہے گی، اتنے ہی عرصے تک اس وائرس میں مبتلا کسی مسافر کی ایشیا میں منتقلی کے بعد اس کے پھیلنے کا خدشہ اسی قدرزیادہ ہوگا۔

اس مہلک بیماری پر کنٹرول اسی طرح ممکن ہے کہ اس کا جانچ کے لیے کس قدر تیز رفتاری سے اقدامات کیے جاتے ہیں اور علاج میں کیا طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ اسی سے طے ہوگا کہ اس علاقے میں اس وائرس کس پیمانے پر پھیلے گا۔

ایشیا جہاں اربوں لوگ غربت کی زندگی گزارتے ہیں اور جہاں صحت کی سہولیات بھی اکثر ناقص ہیں، یہاں حکومتیں اس وائرس کو روکنے کے لیے منصوبے بنا رہی ہیں، ہوائی اڈوں پر نگرانی میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور قرنطینہ کے طریقوں پر غور کیا جا رہا ہے۔

اس کے باوجود ایشیا کے ترقی پذیر ممالک میں ماہرین صحت کو خدشہ ہے کہ اس وائرس کا پھیلاؤ مہلک ہو گا اور اس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔

ایبولا کی ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، جسم میں درد، کھانسی، پیٹ میں درد، قے آنا اور تھکن محسوس ہونا شامل ہیں۔

واضح رہے کہ ایشیا میں دنیا کے 60 فیصد انسان بستے ہیں۔ گوکہ ایشیا ترقی کے اعتبار سے مغربی افریقہ سے کہیں آگے ہے۔ ایشیا میں ہی سنگاپور، ملائیشیا، جنوبی کوریا اور جاپان جیسے ترقی یافتہ یا ابھرتے ہوئے ملک واقع ہیں۔

لیکن ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، چین، فلپائن اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں مفلسوں کی بڑی تعداد مقیم ہے، جن میں سے زیادہ تر لوگ جھگیوں یا جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ یہاں صحت کی سہولیات پر مناسب سرمایہ بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔

یاد رہے کہ عالمی ادارۂ صحت (ڈبليوایچ او) نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ ایبولا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق اب تک اس وائرس نےتقریباً پانچ ہزار افراد کو ہلاک کیا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کا کہنا تھا ایبولا سے سب سے زیادہ متاثر تین ملک سیرا لیون، لائبیریا اور گنی کے علاوہ دیگر ملکوں میں صرف 27 کیس سامنے آئے ہیں۔

انہی تین ممالک میں اس بیماری سے سب سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر ملکوں میں اب تک صرف 10 لوگوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق لائبیریا میں سب سے زیادہ یعنی 2705 افراد، سیرا لیون میں 1281 اور گنی میں 926 لوگوں کی جانیں اس بیماری کی نذر ہوچکی ہیں۔

ایبولا سے مرنے والوں میں ایک نیا نام مالی کابھی ہے، جہاں دو سال کی ایک بچی ایبولا کا شکار ہوئی۔

مالی کے صدر ابراہیم ابوبکر كیتا کا کہنا تھا کہا کہ اس واقعہ کی وجہ سے لوگوں میں دہشت کو پھیلے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا’’لوگوں میں خوف اور گھبراہٹ کو دور کرنے کے لیے ہم سب کچھ کریں گے۔ یہ بچی اپنی دادی کے ساتھ جہاں جہاں سے گزری تھی، اس کی شناخت کر لی گئی ہے۔ ایسے 41 افراد کو قرنطینہ میں الگ تھلگ رکھا گیا ہے، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اس بچی کے رابطے میں آئے تھے۔‘‘

لیکن صدر كیتا نے یہ بھی کہا کہ وہ گنی سے ملحق سرحد کو بند نہیں کریں گے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق اب تک ابولا کے کل 10141 کیس سامنے آئے ہیں، لیکن اس کی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے متاثرہ افرد کے لواحقین اپنے بیمار رشتہ داروں کو صحت کے مراکز کے بجائے اپنے گھروں پر رکھے ہوئے ہیں۔

اسی دوران سیرا لیون میں ایبولا متاثرین کا علاج کرنے کے بعد امریکہ پہنچنے والی ایک نرس نے امریکہ میں اپنے ساتھ کیے گئے سلوک پر تنقید کی ہے۔

کیسی ہکاکس نامی نرس کو امریکی حکام نے قرنطینہ میں الگ تھلگ رکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں ایئرپورٹ ٹرمینل پر سات گھنٹے تک الگ تھلگ رکھا گیا تھا اور ان سات گھنٹوں میں انہیں معمولی مقدار میں کھانا دیا گیا تھا۔

امریکہ کی تین ریاست نيویارك، نیوجرسی اور ایلی نوائے کے گورنروں نے حکم دیا ہے کہ مغربی ممالک میں ایبولا متاثرین کے رابطے میں آنے والے کسی بھی شخص کو امریکا آنے پر اسے لازماً 21 دنوں تک قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔

کیسی نے کہا کہ ان کے اس تجربے کی وجہ سے صحت کی دیکھ بھال سے منسلک دوسرے لوگ نہیں چاہیں گے کہ وہ مغربی افریقی ملک جا کر ایبولا متاثرین کا علاج کریں۔

اسی دوران امریکی صدر براک اوباما نے اس عزم کااظہار کیا تھا کہ امریکہ ایبولا کو شکست دینے میں کامیاب ہو گا۔

ریڈیو پر اپنے ہفتہ وار پیغام میں اوباما نے کہا کہ ایبولا کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اس سے ڈرنے کے بجائے درست معلومات حاصل کریں۔