پنجاب میں پیپلزپارٹی کی تنظیم نو، بلاول کے لیے ایک مشکل ہدف
اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لاہور کے آئندے دورے کے موقع پر مزید چیلنجز اس نوجوان سیاستدان کو اپنی گرفت میں لے سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ عام انتخابات کے دوران پارٹی کی مایوس کن ناکامی کے بعد پارٹی کو ازسرِ نو منظم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
اس بات کے اشارے ملے ہیں ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پارٹی کے معاملات کو منظم کرنے کی کوششوں کےد وران بلاول کو پارٹی کی اپنی صفوں کے اندر سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پیپلزپارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر کے مطابق بلاول کا لاہور کا دورہ اگلے چند دنوں میں متوقع ہے، جہاں وہ پارٹی کا یومِ تاسیس منائیں گے۔ وہ پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنان کے ساتھ تسلسل کے ساتھ ملاقاتیں بھی کریں گے۔
تاہم ترجمان کے اپنے الفاظ میں یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ پنجاب کے ناراض سیاستدانوں کے دل جیتنے کی کوشش بھی کریں گے، جو پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان، جنہوں نے سابق صدر اور پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ساتھ حال ہی میں ملاقات کی تھی، نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے ان کے ساتھ سوتیلی ماں کی طرز کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔
فردوس عاشق اعوان نے ڈان کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں ان کی شکست کی وجہ پارٹی کا انتشار تھا۔
انہوں نے کہا ’’مجھے اب بھی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سیاستدانوں کی جانب سے انتقام کا نشانہ بنایا جارہاہے، جبکہ ملک میں جاری سیاسی بحران کے تناظر میں مسلم لیگ کی کھلے عام حمایت کی جارہی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو نے پانی و بجلی کے وزیر خواجہ آصف کے کہنے پر ان کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت مقدمات شروع کیے تھے۔
واضح رہے کہ خواجہ آصف، فردوس عاشق اعوان کے آبائی شہر میں ان کے اہم سیاسی حریف ہیں۔
بے نظیر بھٹو کے قریبی قابلِ اعتماد ساتھی صفدر عباسی جو ان رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، کا کہنا ہے کہ بلاول کو کئی اہم محاذوں پر فیصلے لینے ہوں گے، اگر وہ پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی کہاں کھڑی ہے، اور بلاول کہاں کھڑے ہیں۔ کیا پارٹی کے اندر جمہوریت نہیں ہونی چاہیے، اور کیا ایسے لوگ جو پارٹی کے زوال کے ذمہ دار ہیں، ان کے محاسبے کی ضرورت نہیں ہے۔
صفدر عباسی نے کہا ’’اگر بلاول یہ اقدامات اُٹھانے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تو وہ پارٹی کو ایسا نقصان پہنچائیں گے، جس کا ازالہ نہیں کیا جاسکے گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر وہ ان خدشات کو دور کرنے کا اہتمام کرتے ہیں تو ان کے ساتھ شامل ہونے والوں میں، میں پہلا فرد ہوں گا۔‘‘
پچھلے مہینوں کے دوران پارٹی کی ہائی کمان کے درمیان اختلافات کی رپورٹیں پریس کو لیک ہوئی تھیں۔
پیپلزپارٹی کی ایک رکن صوبائی اسمبلی پروین جونیجو سے مبینہ طور پر مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔ جبکہ کہا جارہا ہے کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے حالیہ اجلاسوں میں بات چیت کے دوران اہم پارٹی رہنماؤں کے اختلاف چھائے رہے۔
سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے حالیہ اجلاسوں میں شریک ایک ذریعے نے ڈان کو بتایا کہ بلاول نے بعض رہنماؤں کو خبردار کیا تھا کہ اگر یہ معاملات درست نہیں کیے گئے تو 2013ء میں پیپلزپارٹی کے نامزد بہت سے امیدوار اگلے انتخابات میں دیگر پارٹیوں کے ٹکٹ پر حصہ لے سکتے ہیں۔
مذکورہ ذریعے کا کہنا تھا کہ ’’پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر نے اجلاس کے دوران بلاول کو بتایا کہ انہیں پیپلزپارٹی کی خواتین ونگ کی صدر فریال تالپور نے فون کیا تھا اور ان سے پوچھا تھا کہ کیا ان کا پارٹی کے ساتھ رہنے کا ارادہ ہے۔‘‘
سابق وزیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک وفادار کارکن ہونے اور پارٹی کے لیے ماضی میں متعدد قربانیاں دینے کے باوجودان کی وفاداری پر سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔