پی پی کا جلسہ، شہری زندگی مفلوج ہونے کا امکان
کراچی: اس بات کا امکان ہے کہ 18 اکتوبر کو شہر کے ٹریفک کا نظام سنگین مسائل کا شکار ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ اس روز پاکستان پیپلزپارٹی کراچی میں اپنی عوامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے جارہی ہے۔
قائداعظم کے مزار کے سامنے منعقدہ اس جلسے کے لیے شہر کی تین ہزار بسوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جبکہ پولیس حکام نے اس روز شہر میں بھاری گاڑیوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی ہے اور ٹرانسپورٹرز کو متبادل راستے اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
شہر کے ٹرانسپورٹروں اور بھاری گاڑیوں کے مالکان کے ساتھ ڈی آئی جی ٹریفک کے ساتھ ایک اجلاس میں کچھ فیصلے کیے گئے۔
بھاری گاڑیاں جن میں آئل ٹینکرز اور تجارتی اشیاء لے جانے والی گاڑیاں بھی شامل ہیں، کے مالکان کے ایک ترجمان اسرار احمد شنواری کا کہنا تھا ’’ڈی آئی جی ٹریفک نے پہلے ہم سے درخواست کی تھی کہ 18 اکتوبر کو بھاری گاڑیاں چلانے سے گریز کیا جائے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’ہم نے اس بات سے اتفاق کیا تھا اور اب آج کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ 18 اکتوبر کو شہر کی سڑکوں پر بھاری ٹریفک کی نقل و حرکت صبح چھ بجے سے رات دس بجے تک بند رہے گی۔ روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً چار ہزا گاڑیاں شہر کی سڑکوں متحرک رہتی ہیں۔‘‘
پیپلزپارٹی کا ارادہ ہے کہ اس جلسے کے ذریعے پارٹی کو حیاتِ نو بخشی جائے۔ اس جلسے کو پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے عوامی اجتماعات کے ایک سلسلے اور دھرنوں کا اہم ردّعمل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں ایک کامیاب سیاسی شو کیا تھا۔
حکمران جماعت کو توقع ہے کہ اس جلسے کے ذریعے اس کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کراچی میں اور صوبے کے دوسرے حصوں میں کارکنان کو متحرک کردیں گے، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس سے شہری زندگی ضرور متاثر ہوگی۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس روز ایسا کچھ نہیں ہوگا کہ جس سے شہری زندگی متاثر ہوسکے، اس لیے کہ شہر کی کسی اہم شاہراہ کو بند نہیں کیا جائے گا۔
ایڈیشنل آئی جی ٹریفک جو مئی 2014ء سے سٹی پولیس کے سربراہ کی کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں نے بتایا ’’صرف جلسے کے مقام کے اردگرد کی سڑکوں کو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بند کیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’گاڑیوں کو متبادل راستوں پر موڑنے کے لیے ہمیں ٹریفک پولیس کی بھاری نفری تعینات کرنی پڑے گی۔ دوسری صورت میں شاہراہ فیصل، شاہراہِ پاکستان یا کسی بھی دوسری اہم شاہراہ کوبند نہیں کیا جائے گا۔‘‘
لیکن ٹرانسپورٹروں اور ڈی آئی کے درمیان اجلاس میں کیے گئے فیصلے کچھ اور داستان سنارہے ہیں۔ یہ شہر جو پہلے ہی پبلک ٹرانسپورٹ کی سنگین قلت کا سامنا کررہا ہے، اس میں سے بھی تین ہزار بسیں اٹھارہ اکتوبر کو کم ہوجائیں گی۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے ان بسوں کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں، جو شہر کے مختلف مقامات سے جلسے کے مقامات تک کارکنوں کو لانےاور لے جانے کا کام کریں گی۔
کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے ارشاد بخاری کہتے ہیں ’’ہم سے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے رابطہ کیا تھا اور درخواست کی تھی کہ تین ہزار بسیں، منی بسیں اور کوچز کو اٹھارہ اکتوبر کے لیے مختص کردیا جائے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’یہ اچھی بات ہے کہ وہ ہماری ہر ایک بس کی ادائیگی کررہے ہیں، جس کے لیے ہم ان کی تعریف کرتے ہیں، جبکہ دیگر پارٹیاں ہماری بسیں لے جاتی ہیں اور بمشکل کسی قسم کی ادائیگی کرتی ہیں۔ لہٰذا ہماری تین ہزار بسیں اٹھارہ اکتوبر کو پیپلزپارٹی کے لیے مختص ہوں گی۔‘‘
اس اجلاس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکام نے اٹھارہ اکتوبر کو پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل و حرکت پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی، لیکن ٹرانسپورٹروں کو مشورہ دیا کہ وہ ہفتے کے روز بسیں چلاتے ہوئے ہوشیار اور محتاط رہیں۔
ارشاد بخاری نے کہا ’’توقع کی جارہی ہے کہ اس جلسے میں لاکھوں لوگ شرکت کریں گے، چنانچہ ہفتے کے روز سڑکوں پر آزادانہ نقل و حرکت کرنا عقل مندی نہیں ہوگی۔‘‘
انہوں نے کہا ’’سیکورٹی کے انتظامات اور لوگوں کی بڑی تعداد کی نقل و حرکت سے مزار کو جانے والے تمام راستوں پر یقیناً ٹریفک جام ہوجائے گا۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ یہ شہر کے باشندوں کے لیے معمول کا دن ہوگا اور بلاشبہ ٹرانسپورٹ کا نظام سنگین حد تک متاثر ہوگا۔‘‘