پی پی کے ناراض کارکنان کا کراچی کے جلسے میں شرکت سے انکار
راولپنڈی: کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 18 اکتوبر کو ہونے والے عوامی جلسے میں شرکت سے راولپنڈی شہر کے سینئر کارکنوں کے انکار کے بعد پارٹی کی قیادت نے مقامی چیپٹر سے کہا کہ انہیں ایک ہفتے کے اندر اندر قائل کیا جائے۔
کراچی کے عوامی جلسے کو کامیاب بنانے اور اس میں پارٹی کے پرانے کارکنوں کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے پیپلزپارٹی نے اس ضلع میں پارٹی کے سابق انتخابی امیدواروں سے بھی کہا ہے کہ وہ پرانے کارکنوں کو کراچی لے کر آئیں۔
یہ فیصلہ اس جمعرات کو لاہور میں بلاول ہاؤس پر سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ راولپنڈی ڈویژن کے کارکنان کی ملاقات کے دوران کیا گیا۔
پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی نے ایک ٹیم تشکیل دی ہے، جو سابق وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف کی قیادت میں راولپنڈی ڈویژن کے تمام چاروں ضلعوں کا دورہ کرے گی اور پرانے کارکنوں کو اس عوامی جلسے میں شرکت پر آمادہ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ 2013ء کے انتخابات میں پارٹی کے امیدواروں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دو دو بسیں لے کر آئے اور کارکنوں کے لیے ٹرین کے ٹکٹوں کا بھی انتظام کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ پرانے کارکنان پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر منظور وٹّو کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے پارٹی کے مقامی اور پنجاب چیپٹرز کے اجلاسوں میں شرکت کرنا نہیں چاہتے۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی کے پرانے کارکنوں کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کراچی میں منعقد ہونے والے پارٹی کے عوامی جلسے میں ان کی شرکت چاہتے ہیں، جہاں بلاول بھٹو زرداری عملی سیاست کا آغاز کریں گے۔
ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ ’’ان کارکنان کو پیپلزپارٹی کے پچھلے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے دوران نظرانداز کیا گیا تھا۔ پارٹی قیادت کی بے حسی کی وجہ سے بہت سے پرانے اور پُرعزم کارکنان نے پارٹی چھوڑ دی ہے اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سابق یوسی نائب ناظمین سیٹیلائٹ ٹاؤن کے عمران حیات، ڈھوک حکمداد کے چوہدری مجید اور صادق آباد کے ساجد عباسی پیپلزپارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا ’’پیپلز پارٹی کے کارکنان اور حمایتی افراد میں سے زیادہ تر سیاست میں لبرل اور ترقی پسند سوچ کے حامل ہیں، اور پی ٹی آئی کا ایجنڈا اُن کے لیے مناسب لگتا ہے، چنانچہ وہ عمران خان کی پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔‘‘
پیپلزپارٹى راولپنڈی چیپٹر کے سابق سیکریٹری اطلاعات ناصر میر نے تسلیم کیا کہ زیادہ تر پارٹی کارکنوں نے کراچی کے عوامی جلسے میں شرکت سے انکار کردیا ہے، اس لیے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران انہیں نظرانداز کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے مختلف تقریبات اور اجلاسوں میں صرف تاجروں اور دولت مند کارکنان کو مدعو کیا جاتا ہے، جنہوں نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
جب پیپلز پارٹی کی مرکزی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن سلطان محمود قاضی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پارٹی اپنے کارکنوں کو فراموش نہیں کرے گی، اور ان کے ساتھ ملاقاتیں کرکے انہیں سیاست میں متحرک کردار ادا کرنے پر آمادہ کرے گی۔
انہوں نے کہا ’’ماضی میں پارٹی سے بہت سی غلطیاں ہوئی تھیں، لیکن اب اس نے اپنے کارکنان کو قائل کرنا شروع کردیا ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان کارکنان کو نظرانداز کیا گیا تھا، لیکن ایسا اس لیے ہوا تھا کہ اس وقت پیپلزپارٹی جمہوریت کے تحفظ اور عدالتی مقدمات کا سامنا کرنے میں مصروف تھی۔‘‘
سلطان محمود قاضی نے کہا کہ راولپنڈی سے پیپلزپارٹی کے کارکنان نے پی ٹی آئی یا کسی دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے، اس لیے کہ وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے کام کرنے میں پُرعزم ہیں۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ سیٹیلائٹ ٹاؤن، ڈھوک حکمداد اور صادق آباد کے سابق نائب ناظمین سمیت پارٹی کے کچھ کارکنان نے پیپلزپارٹی کو چھوڑ دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف چوہدری مجید ایک پرانے اور سینئر رکن تھے، جنہوں نے ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران مصائب کا سامنا کیا تھا۔ ’’ہم انہیں پیپلزپارٹی میں واپس لانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
سلطان محمود قاضی کا کہنا ہے کہ انہوں نے عید کے تیسرے دن پیپلزپارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ راولپنڈی اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پارٹی کارکنوں سے ملاقات کی تھی، اور وہ پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے جلد ہی اٹک، چکوال اور جہلم بھی جائیں گے۔