اس سال 149 متاثرہ بچے پولیو ویکسین سے محروم رہے
پشاور: والدین کی جانب سے اپنے بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلانے سے انکار نے پولیو کے خاتمے کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں میں رکاوٹ کھڑی کردی ہے، اس لیے کہ اعدادوشمار کے مطابق پولیو کے مرض سے متاثرہ کل 166 بچوں میں سے 149 بچے ایسے تھے، جنہیں پولیو کے قطرے پلائے نہیں گئے تھے۔
متعلقہ حکام کے مطابق پاکستان میں اب تک پولیو کے 166 کیسز کا اندراج کیا جاچکا ہے، جبکہ 2013ء میں 93 کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ والدین کی جانب سے پولیو کے قطرے اپنے بچوں کو پلوانے سے انکار کا رجحان ہے، جو خاندانوں میں موجود مختلف غلط فہمیوں کی وجہ سے پروان چڑھ رہا ہے۔
پولیو کے کل کیسز میں سے اب تک 119 کیسز وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں رجسٹرد کیے گئے ہیں۔ جہاں سیکیورٹی کے مسائل اور طالبان کی جانب سے شمالی اور جنوبی وزیرستان ایجنسی میں حفاظتی ٹیکوں پر عائد پابندی نے ہیلتھ ورکروں کو ان اہم متعلقہ علاقوں میں مقیم پچوں تک رسائی سے روک دیا ہے۔
اگرچہ فاٹا میں حکام بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے والدین کے انکار کا ریکارڈ جمع نہیں کرپائے ہیں، تاہم ملک کے باقی حصوں سے سامنے آنے والے پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کے رجحان خطرے کی گھنٹی ہے، اور یہ رجحان اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ پاکستان میں انسدادِ پولیو کی مہم کے دوران مستقبل میں بھی والدین کی جانب سے انکار کیا جاتا رہے گا۔
یہاں تک کہ فاٹا کے باہر جہاں اکثر انسدادِ پولیو کی کوششوں کو روکنے کو روکنے کا الزام لگایا جاتا ہے، ان میں بھی 47 میں سے 31 متاثرہ بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے نہیں پلائے گئے تھے، اور ان کیسز کو مستقل انکار کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ کوششوں کے باوجود پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کے کیسز ایک مشترکہ خصوصیت بن گئے ہیں، اس لیے کہ اس سال خیبر پختونخوا میں سامنے آنے والے پولیو کے کل 28 کیسز میں سے پولیو سے متاثرہ 20 بچوں کے والدین نے پولیو کی ویکسین پلوانے سے انکار کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پشاور کے 9 کیسز میں سے چھ نے پولیو ویکسین کے قطرے نہیں پیے تھے، اس لیے ان کے والدین نے اس کی مخالفت کی تھی۔
اسی طرح بنوں ڈسٹرکٹ میں پولیو سے متاثرہ بارہ بچوں میں سے گیارہ بچے اپنے والدین کی جانب سے انکار کی بناء پر پولیو کی ویکسین سے محروم رہ گئے تھے۔
ریکارڈ کے مطابق فاٹا کے باہر اس سال ستر فیصد بچوں کی ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے تھے، اس لیے کہ ان کے والدین کے انکار کی وجہ سے انہیں پولیو سے محفوظ رکھنے والی ویکسین کے قطرے نہیں پلائے جاسکے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں نہ تو سیکورٹی کے مسائل ہیں اور نہ ہی عدم رسائی کے، لیکن پولیو ویکسین سے انکار کو کم نہیں کیا جاسکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیو ویکسین کی طلب پیدا کرنے اور اس طرح کے کیسز سے نمٹنے کے لیے ایک متحرک مہم کی ضرورت ہے۔
کراچی میں 2014ء کے دوران اب تک پولیو کے 13 کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں، جن میں سے آٹھ بچے اپنے والدین کی جانب سے پولیو ویکسین پلوانے سے انکار کی وجہ سے اس معذور کردینے والی بیماری کا شکار بنے۔
والدین کی جانب سے انکار کا یہ مسئلہ محکمہ صحت کے حکام اور پولیو کے خاتمے کی مہم میں مصروف اقوامِ متحدہ کے اداروں کے لیے اب ایک چیلنچ بن گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے برعکس شہری علاقوں میں پولیو سے متاثرہ 48 بچوں میں سے صرف 17 کوپولیو ویکسین پلائی گئی تھی، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پریشانی صرف فاٹا میں ہی موجود نہیں ہے، جہاں دہشت گردی نے اس مہم میں رکاوٹ پیدا کررکھی ہے۔
پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کرنے والے خاندانوں کی اکثریت چھوٹے علاقوں میں مقیم ہے، لیکن دو دہائیوں سے جاری انسدادِ پولیو کی حکومتی کوششوں کو ناکام بنادیا ہے۔
خیبر پختونخوا کا محکمہ صحت صوبے بھر میں انسدادِ پولیو مہم شروع کررہا ہے، جس میں پچاس لاکھ بچوں کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، تاہم والدین کی جانب سے انکار سے نمٹنے کے سلسلے میں کسی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق جب تک ایک وائرس دنیا میں کہیں بھی باقی ہے، وہ بچوں کو متاثر کرسکتا ہے۔
رابطے کی مختلف حکمت عملی پولیو کے قطروں کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے میں ناکام رہی ہیں، اس لیے کہ یہ طویل اور گراں قدر مہم کوئی نتائج نہیں دے سکیں۔