جنگل بیابان میں گزرے برس
انہوں نے دیکھا کہ ہر روز صبح کو دو بچے بکریوں اور بھیڑوں کو چرانے لے جاتے ہیں۔ یہ اس وقت کا قصہ ہے جب انہیں اس وادی کے ایک گھر میں قید کردیا گیا تھا۔ ایک دن انہوں نے بچوں سے پوچھا آخر تم لوگ اسکول کیوں نہیں جاتے۔
ان میں سے ایک بچے نے جواب دیا ’’ہم اس کے عادی ہیں۔ لیکن جب سے لڑائی ہورہی ہے، اسکول بند کردیے گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے بچوں سے پوچھا ’’کیا تمہارے پاس اب بھی تمہاری کتابیں موجود ہیں؟‘‘
بچوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
انہوں نے کہا ’’تم اپنی کتابیں ساتھ میں کیوں نہیں لے آتے، میں تمہیں پڑھاؤں گا۔‘‘
وہ اگلے روز آئے لیکن دس منٹ میں بعد ہی چھٹی مانگی۔
انہوں نے وضاحت چاہی ’’کیوں؟ ابھی تو تم نے اپنے پہلا سبق ہی مکمل نہیں کیا ہے۔‘‘
جلد ہی دوسرے بچوں بھی ان کے ساتھ آنے لگے۔ اس طرح اگلے دس مہینوں میں بچوں کی تعداد بتیس سے زیادہ ہوگئی۔
لیکن پھر ان سے رخصت کا وقت آگیا، اس لیے کہ انہیں کسی دوسرے مقام پر منتقل کیا جارہا تھا۔
وہ انہیں استاد جی کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ یہ لقب اجمل خان کے لیے نہ مٹنے والا نشان بن چکا ہے۔
وہ ایک ایسے استاد ہیں، جو وزیرستان کے پہاڑوں میں برسوں قید میں رہے اور اب واپس لوٹ چکے ہیں۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اجمل خان کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے 2010ء میں اغوا کیا گیا تھا۔ گزشتہ اگست میں وہ چار سال بعد گھر لوٹ آئے۔
انہوں نے بتایا ’’جب میں ان سے کہتا کہ اب تم لوگوں کی چھٹی، تو وہ پھدک کر اُٹھتے اور دوڑ جاتے۔ وہ کسی بھی سرکاری اسکول کے بچوں کی مانند تھے۔ سوائے اس کے کہ ان کے پاس کوئی سہولت نہیں تھی۔‘‘
کیا کھویا، کیا پایا
چار سال پہلے میں جب پشاور یونیورسٹی کے عقب میں واقع پروفیسر کالونی کے اس گھر پر آیا تھا تو یہاں خاموشی اور مایوسی کی فضا طاری تھی۔
وہ 2010 ء کا ستمبر تھا، اسی مہینے اجمل خان کو اغوا کیا گیا تھا۔ میں اپائنمنٹ لیے بغیر پہنچ گیا تھا، میری فون کالوں کا جواب نہیں دیا جارہا تھا۔
ان کے خاندان کو بات چیت کے ساتھ سب سے زیادہ پریشان کیا گیا تھا، اغوا کار میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہے تھے اور حکومت کو مجبور کررہے تھے کہ وہ ان کے مطالبات پورے کرے۔
سیکیورٹی گارڈز نے مجھے گیٹ پر ہی روک دیا۔ جب میں نے کہا کہ میں اجمل خان کے خاندان سے ملنا چاہتا ہوں، تو انہوں نے کہا کہ ان میں سے کوئی بھی مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتا۔
اگلی سڑک پر کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر لطف اللہ کاکاخیل رہتے ہیں۔ انہیں نومبر 2009ء میں اغوا کیا گیا تھا، اور محض چھ ماہ قید رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ اس طرح کی قیاس آرائیاں تھیں کہ حکام نے تاوان ادا کیا تھا۔لیکن اجمل خان کا معاملہ پیچیدہ تھا۔ وہ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی خان کے کزن تھے، جن کی پارٹی خیبر پختونخوا میں اس وقت برسراقتدار تھی۔
اس پارٹی کی پاکستانی طالبان کے لیے مزاحمت نے ٹی ٹی پی کو ان کا دشمن بنادیا تھا، اس کے کارکنان اور سیاستدانوں کو مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں اور انہیں نشانہ بھی بنایا جارہا تھا۔
ان کی گھر واپسی پر ان کے خاندان کو مبارکباد دینے کے لیے آنے والے مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا تھا، اجمل خان نے ایک لمحے کو اس ماحول سے ذہنی طور پر باہر نکل کر کہا ’’میری حکیم اللہ محسود کے ساتھ ملاقات درحقیقت خوشگوار تھی۔‘‘
اجمل خان نے بتایا ’’انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم آپ کے خلاف کچھ بھی نہیں کررہے ہیں۔ لیکن ہم یہاں ایک تنظیم چلا رہے ہیں۔ ہمیں آپ کی رقم نہیں چاہیٔے، یہ ہمارے لیے حرام ہے۔ ہم حکومت سے تاوان کے لیے کہہ رہے ہیں۔‘‘
کیا حکومت نے تاوان کی ادائیگی کردی ہے، یا ٹی ٹی پی کے قیدیوں کو پروفیسر اجمل خان کے بدلے میں رہا کردیا ہے، یہ واضح نہیں ہوسکا۔
ٹی ٹی پی کے سربراہ ملّا فضل اللہ کا دعویٰ ہے کہ پروفیسر اجمل خان کو تین طالبان کمانڈروں کے بدلے میں رہا کیا گیا ہے۔
جبکہ آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے پروفیسر اجمل خان کو بحفاظت رہا کروالیا ہے۔
دورانِ قید گزری زندگی
اجمل خان کو ٹی ٹی پی نے جب اغوا کیا تو وہ کلین شیو اور چوڑے چکلے تھے۔
اور جب وہ واپس آئے تو باریش اور دبلے پتلے ہوگئے تھے۔ جنگل میں گزارے گئے ان چند سالوں کے دوران ان کا نکتہ نظر کیسے تبدیل ہوگیا؟
ان کا کہنا تھا کہ ’’میں نہیں سمجھتا کہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئی ہے، سوائے اس کے میں نے داڑھی بڑھا لی ہے۔‘‘اجمل خان نے بتایا ’’لیکن اب میں ہمیشہ رکھنا چاہتا ہوں۔جب وہ مجھے وزیرستان لے گئے، انہوں نے مجھے ریزرکا ایک بڑا پیک لا کردیا۔ میں نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے شہری طور طریقے کی پیروی نہیں کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔نہ ہی مجھے یہ سہولتیں درکار تھیں۔ ‘‘ان کا خاندان ان کے بغیر گزارے ہوئے وقت کو بجائے سالوں میں بیان کرنے کے دنوں میں بیان کرتا ہے۔ وہ ان کے انتظار میں گزارے ہوئے طویل غمزدہ وقت کو چار سالوں کے بجائے چودہ سو اکیاون دن کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔
جبکہ اجمل خان کے لیے یہ وقت ایک طویل خواب کی مانند تھا۔
اس دوران ان کا روزانہ کا معمول تھا کہ وہ علی الصبح نماز کی ادائیگی کے لیے بیدار ہوتے، ریڈیو سنتے، اور اپنے لیے کھانا پکاتے، اس لیے کہ ٹی ٹی پی کے اراکین چکنائی سے بھرپور کھانے کھاتے تھے، جو کہ ان کے کمزور دل کے لیے مضر ثابت ہوسکتے تھے۔ نہ تبدیل ہونے والے مناظر کے ساتھ پہاڑوں پر پیدل چلنا، دکانداروں کے ساتھ بات چیت کرنا، وہ بھول گئے تھے کہ وہ کسی اور جگہ کے باشندے ہیں۔
اب ان کا کہنا تھا ’’ایک وقت ایسا آیا جب مجھے محسوس ہوا کہ میری پوری زندگی وہیں گزری تھی۔ ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے میں وہیں پیدا ہوا تھا، اور انہیں پہاڑوں کے ساتھ بڑا ہوا تھا۔‘‘
ان کی سابقہ زندگی انہیں اس وقت یاد آتی جب ان کا گھر سے فون کے ذریعے رابطہ ہوتا اور ریڈیو کی نشریات کے ذریعے وہ اپنی پچھلی زندگی جُڑ جاتے، جسے وہ باقاعدگی سے سنتے تھے۔
ان کے دو برادرِ نسبتی اور ایک کزن کی ہلاکت کی خبر ان کے خاندان کے لوگوں نے ان سے چھپائی، جو مردان میں ایک نمازِ جنازہ کے اجتماع پر خودکش حملے میں ہلاک ہوئے تھے، یہ خبر انہیں ریڈیو کے ذریعے ملی۔
جب وہ قید کی زندگی کے مکمل طور پر عادی ہوگئے تھے اور انہیں علم ہوگیا تھا کہ ٹی ٹی پی انہیں نقصان نہیں پہنچائے گی، تو بھی دیگر خطرات نے انہیں اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔
انہیں یاد رہتا تھا کہ ڈرون کے خطرات موجود ہیں، فوج ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر شیلنگ کرتی ہے، اور مسلسل یہ خطرہ پوشید رہتا تھا کہ آیا وہ بچیں گے یا نہیں۔
انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا ’’میں نے اپنے خاندان کو کھودیا تھا، لیکن میں نے دیہات میں دوست بنالیے تھے، جہاں ہم ایک مقامی دکان پر شام کے وقت اکھٹا ہوتے تھے۔‘‘
اجمل خان نے بتایا ’’وہ مجھے دوپہر کے یا رات کے کھانے کے لیے باہر لے گئے۔ میں نے کئی مرتبہ ان ساتھ رات کو رک بھی گیا۔ وہ میرے ضامن بن گئے تھے، انہوں نے ٹی ٹی پی کو قائل کرلیا تھا کہ میں فرار نہیں ہوں گا۔ چنانچہ ان لوگوں نے مجھے تنہا اردگرد کے علاقوں میں جانے کی اجازت دے دی تھی۔‘‘
اب وہ بحفاظت اپنے گھر واپس آگئے ہیں، تو کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر اجمل خان کا کہنا تھا ’’یہ میرے لیے بہت خوشی کے لمحات ہیں کہ میں اپنے بچوں، بھائیوں اور بہنوں کے پاس واپس آگیا ہوں۔‘‘
اور یہ کہہ کر وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے اور اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے بولے ’’میرے پاس اس کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔انہوں نے مجھ پر کبھی تشدد نہیں کیا۔ وہ میرے ساتھ اچھے تھے۔ لیکن پھر بھی وہ قید میں گزرتی زندگی تھی۔ میں آزاد نہیں تھا۔ میں ان کے قوانین کے مطابق زندگی گزار رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہمیں دیکھو، جب ہم پکڑے جاتے ہیں، تو ہمیں قیدخانوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ہم برسوں سورج کی روشنی نہیں دیکھ پاتے۔ میں نے ان سے کہا بے شک میں قید میں نہیں ہوں، لیکن میرا خاندان کہاں ہے؟‘‘