پاکستان

پی ٹی آئی کے دو اراکین کا سول نافرمانی کی کال پر اعتراض

قومی اسمبلی کے لیے پی ٹی آئی کے ایک امیدوار نے عمران خان کے نام اپنے خط میں کہا ہے کہ سول نافرمانی سے انتشار پیدا ہوگا۔

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی سول نافرمانی کی کال اور پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل-این) کی حکومت کی برطرفی کے مطالبے کی ان کے حریفوں نے تو مخالفت کی ہی ہے، تاہم ان کے کچھ کٹر حامیوں نے بھی اس سے خود کو الگ کرلیا ہے۔

سعید خورشید احمد 2013ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست این اے-153 کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، انہوں نے عمران خان کو ان کی سول نافرمانی کی کال پر اپنی ناراضگی سے آگاہ کیا ہے۔

پارٹی چیئرمین کو لکھے گئے اپنے ایک خط میں سعید خورشید نے کہا ہے ’’میں نے پی ٹی آئی میں شمولیت ان وجوہات کی بنا پر اختیار کی تھی کہ یہ پارٹی قابلیت، اداروں کی آزادی، انصاف اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔‘‘

جاری مارچ کے دوران عمران خان کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بطور پارٹی کے کارکن وہ منتخب وزیراعظم کی برطرفی کے مطالبے کے قائل نہیں ہیں۔

اپنے خط میں انہوں نے کہا ’’میں اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنی رائے سے آگاہ کررہا ہوں، حالانکہ میں اس کمیٹی کا حصہ نہیں ہوں، جو اس صورتحال سے نمٹ رہی ہے۔ہم ایک غیرآئینی تبدیلی کے لیے کوشش کررہے ہیں، یہ تباہ کن ہوگی، اور اس سے یقینی طور پر سیاسی بحران اور انتشار پیدا ہوگا۔‘‘

’’ہماری پارٹی کی بصیرت اور اس کے وجود کےبارے میں عوامی رائے کا گراف ایک تبدیلی کو ظاہر کررہا ہے۔ ہم تیزی سے ایک عسکریت پسند گروپ کی مانند اور ایک انتشار پسند جماعت قرار دیےجانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ معتدل تصور کہ پارٹی انتخابی اصلاحات، ادارہ جاتی خودمختاری، انصاف، قانونی کی حکمرانی اور ملک میں تمام سماجی، معاشی اور تعلیمی اصلاحات چاہتی ہے، لگتا ہے کہ تبدیل ہوگیا ہے۔‘‘

سعید خورشید نے مزید کہا ’’آزادی مارچ کے آغاز سے یہ مشاہدہ کررہا ہوں کہ آپ نے اپنے بیانات اور مارچ کے مقاصد کے سلسلے میں پارٹی کا مؤقف تبدیل کردیا ہے۔‘‘

’’آپ نے جاوید ہاشمی جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کا اعتماد جیت لیا تھا، جنہوں نے جاری جمود کو ختم کرنے کے لیے آپ کے ساتھ شمولیت اختیار کی تھی۔‘‘

’’میں براہِ راست الفاظ کے ذریعے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے ایسے حامیوں کی اکثریت کے درمیان مایوسی پیدا ہوئی ہے، جو تشدد، نفرت آمیز تقاریر، انتشار، ریاستی اداروں خاص طور پر عدلیہ، پولیس اور ریٹائیرڈ فوجی سربراہ وغیرہ کے خلاف توہین آمیز بیانات کو پسند نہیں کرتے۔‘‘

انہوں نے اپنے خط میں تحریر کیا ہے کہ پاکستان ایک ناکام جمہوریت یا ریاست قرار دیے جانے کا متحمل نہیں ہوسکتا، اور پارٹی کے سربراہ سے درخواست کی ہے کہ وہ سول نافرمانی کے فیصلے کو واپس لے لیں۔

اپنی پارٹی کے سربراہ کے حالیہ مؤقف پر انہیں تنقید کا نشانہ بنانے میں سعید خورشید تنہا نہیں ہیں۔

کے آصف جو انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن (آئی ایس ایف) کے سابق صدر رہ چکے ہیں، اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے عمران خان کے ساتھ ہیں، انہوں نے بھی اپنی پارٹی کے سربراہ کے فیصلے کی حمایت نہیں کی۔

گزشتہ سال کے آصف نے آئی ایس ایف کے صدر کے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا، لیکن پارٹی کی رکنیت کو برقرار رکھا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ پارٹی کی موجودہ قیادت نے بظاہر مثبت انداز میں تبدیلی لانے کے نعرے کو بھلادیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے آنے والوں نے عمران خان کو ناقص مشورے دے کر پی ٹی آئی کے امیج کو خراب کردیا ہے۔