دنیا

بگرام جیل میں برسوں سے قید ایک پاکستانی کی داستان

یونس کو برطانوی افواج نے عراق سے گرفتار کیا تھا، جہاں وہ چاول کی درآمدات کا کاروبار شروع کرنے کی امید لے کر پہنچے تھے۔

نیویارک: افغانستان میں بگرام کے فوجی اڈے کے مضافات میں حراستی مرکز میں قید یونس رحمت اللہ کی قید کو کئی سالوں کے بعد تسلیم کیا گیا، ان کو گرفتار کرنے والوں نے انہیں وکیل تک کی فراہمی سے انکار کردیا تھا۔

یونس رحمت اللہ ایک پاکستانی شہری ہیں، جنہیں پہلی مرتبہ 2004ء کے دوران برطانیہ کی جانب سے عراق میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ برطانیہ میں دائر مقدمے کے سلسلے میں اپنے وکیل سے بات کرنے سے بھی معذور ہیں۔ جہاں شاید انہیں کوئی جانتا بھی نہ ہو، پھر بھی ان کے مقدمے نے برطانوی ججوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہے۔

اگرچہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ وکیل تک رسائی کے لیے متواتر درخواست کرتے رہے لیکن امریکی فوج نے بلاتردّد اس درخواست کو مسترد کردیا۔

مئی میں اپنی رہائی تک یونس سب سے زیادہ خفیہ رکھے جانے والے قیدیوں کے جتھے کے ساتھ تھے، جنہیں اوباما کے دورِ اقتدار میں امریکا نے گرفتار کیا تھا۔

درجنوں کی تعداد میں ان غیر افغانی قیدیوں میں زیادہ تر پاکستانی شامل ہیں، جو کابل سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع پاروان کے حراستی مرکز میں قید تھے۔

یہ قیدی انسانی حقوق اور قانونی وکیلوں کی پہنچ سے دور ہیں اور یہی اہم وجہ ہے کہ امریکی عدالتیں ان تک رسائی نہیں رکھتیں، کہ گوانتا ناموبے کے قیدیوں کی طرح انہیں قیدی تسلیم کرتے ہوئے عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیں۔

جولائی میں یہ اطلاعات ملی تھیں کہ ان قیدیوں میں سے اکثر اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر بطور احتجاج بھوک ہڑتال کررہے ہیں،یہی ایک طریقہ کار ان کے پاس رہ گیا تھا جو مؤثر طریقے سے ان کی چارہ سازی کرسکتا ہے۔

2010ء میں ان کی گرفتاری کے چھ سال کے بعد یونس رحمت اللہ کو ایک نادر موقع ملا اور انہیں اپنے گھروالوں کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت دی گئی۔

جولائی میں دفاع اور خارجہ کی برطانوی وزارتوں کے خلاف اپنے مقدمے کے لیے گواہی کے بیان میں انہوں نے اصرار کیا کہ ’’ہمیں اطلاع دی گئی تھی کہ ہمیں صرف اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ ہم اپنے گھروالوں کو یہ بتاسکیں کہ ہم کیا کررہے ہیں اور ان سے پوچھ سکیں کہ وہ کیا کررہے ہیں۔‘‘

یونس رحمت اللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ بہت جلد ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ برطانیہ میں انسانی حقوق کے وکیلوں نے ان کا کیس لے لیا تھا، یہی وہ موڑ تھا جہاں برطانیہ کی سپریم کورٹ نے 2010ء میں فیصلہ دیا کہ یونس کی حراست غیرقانونی تھی۔

لیکن ان دلائل کے درمیان برطانوی حکومت کا اپنے دفاع میں کہنا ہے کہ یونس رحمت اللہ کے بیان کی تصدیق ہونے میں ابھی دیر ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ ’’فی الحال ہم اس صورتحال اور حالات کے بارے میں بات نہیں کرسکتے، کہ ہم کس طرح بگرام میں دیگر قیدیوں تک پہنچیں گے، جیل کے بارے میں معلومات فراہم کریں گے یا ہمارے ڈی آر بی کے مقدمات کے بارے میں بات کریں گے۔‘‘

ڈی آر بی دراصل ڈیفنس ریویو بورڈ کا مخفف ہے، جو بگرام اور گوانتاموبے میں جاری غیرقانونی اور غیر مخاصمانہ عمل سے کسی قیدی کو لاحق خطرات کا تعین کرتا ہے۔

یونس رحمت اللہ نے بتایا ’’مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ اگر میں نے کسی طرح کی کارآمد اور تفصیلی معلومات اپنے گھروالوں کو فراہم کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ میرے لیے کام کرنے والے برطانوی وکیلوں کو دے سکیں تو فوراً ہی ٹیلی فون لائن منقطع ہوجائے گی اور دوبارہ پھر مجھے ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘

اپنے بیان میں رحمت اللہ نے کہا کہ انہیں برطانیہ کی خصوصی افواج نے عراق میں غلطی سے دہشت گرد قرار دے دیا تھا، جہاں ان کے کہنے کے مطابق وہ شدید کشیدگی کے دوران چاول کی درآمد کا کاروبار شروع کرنے کی امید کے ساتھ پہنچے تھے۔

یونس نے بتایا کہ برطانوی فوجیوں نے انہیں چلتی گاڑی سے باندھ دیا، انہیں برہنہ کردیا اور انہیں ٹھنڈے پانی میں ڈبو دیا، انہیں ایک انتہائی مختصر کمرے میں رکھا گیا، جہاں وہ نہ تو کھڑے ہوسکتے تھے نہ ہی لیٹ سکتے تھے۔

بعد میں جب امریکی افواج نے عراق میں اس پاکستانی شہری یونس کو اپنی تحویل میں لے لیاتو ان کے دعوے کے مطابق امریکی فوج نے دیگر طرح کے تشدد سے بھی کام لیا، ان کے ہاتھوں کو سرسے بلند رکھنے پر مجبور کیا گیا، انہیں برہنہ کرکے ٹھنڈے پانی کی ٹنکی پر لیٹنے پر مجبور کیا گیا ۔

ایک امریکی تفتیش کار نے مبینہ طور پر انہیں بتایا کہ ’’اگر تم ہمیں کچھ نہیں بتاؤ گے تو ہم تمہیں گوانتاناموبے لے جائیں گے۔‘‘

انہیں گوانتاناموبے منتقل کردیا گیا اور انہوں نے بالآخر امریکا کی سپریم کورٹ کے ایک مقدمے کے نتیجے میں انہیں قانونی وکیل تک رسائی اور اپنی قید کو چیلنج کرنے کا حق مل گیا۔

اس کے بجائے امریکی حکام نے غیرواضح وجوہات کی بناء پر جون یا مئی 2004ء کے دوران یونس کو بگرام بھیج دیا، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے اگلے دس سال گزارے۔

یونس نے اپنے گواہی بیان میں لکھا ہے کہ ’’بگرام کی قید کے دوران میرا پورا وقت مسلسل اور شدت کے ساتھ یہ درخواست کرتے گزرا کہ مجھے ایک وکیل تک رسائی دی جائے۔‘‘

ان کی اور دیگر غیرافغان قیدیوں کی درخواستوں کو مسلسل مسترد کیا جاتا رہا۔ ان کے ذاتی نمائندے کے بجائے ڈیفنس ریویو بورڈ کے سامنے ایک فوجی افسر کو وضاحت کے لیے مقرر کیا گیا، اور نہ ہی ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی نے انہیں ایسا کوئی نمائندہ فراہم کرسکی۔ گھروالوں کو کبھی کبھار کی جانے والی ان کی فون کالوں کی مسلسل نگرانی کی جاتی رہی۔

یونس رحمت اللہ نے اپنے گواہی بیان میں کہا ہے کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ بگرام میں ایک معروف فوجی افسر جو ملٹری پولیس کے ایک ستارہ جنرل تھے اور ان کا نام فلپ تھا، انہوں نے ان سے سوال کیا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ بگرام کے قیدیوں کے ساتھ گوانتاناموبے کے قیدیوں سے مختلف سلوک کیا جاتا ہے۔

رحمت اللہ جو انگریزی پر زیادہ عبور نہیں رکھتے جنرل فلپ کے جواب کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’انہوں نے کہا کہ انہیں اس لیے وکیل میسر ہیں کہ اب یہ جیل دنیا بھر میں مشہور ہوچکی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہ جیل بھی اسی طرح مشہور ہوجائے۔ یہ ایک مختلف مقام ہے اور یہاں کے قوانین بھی مختلف ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ تم وکیل سے رابطہ کرو، اس طرح یہ جیل کے بارے میں بھی دنیا بھر کے لوگ جان جائیں گے۔‘‘

گارڈین کی جانب سے جنرل فلپ کے ساتھ بات کرنے کی متعدد کوششیں ناکام رہیں۔

یونس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’اگر میں ایک وکیل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو میں ان سے کہوں گا کہ وہ میری رہائی کو یقینی کے لیے ہرممکن کوشش کریں اور میری داستان کو سب کے سامنے لائیں۔‘‘