چکوال کی مشہور برفی اور اس کی پچاس سالہ روایت
چکوال: یہاں مرکزی تلہ گنگ روڈ پر جنرل پوسٹ آفس کے سامنے ایک دکان کے قریب سے گزرنے والے کسی بھی فرد کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ اس دکان کے شوکیس میں سجی مختلف اقسام کی مٹھائیوں کی خوشبو سے متاثر ہوکر ان کی جانب متوجہ نہ ہو۔
یہ دکان دیسی گھی اور کھوئے کی مسحور کن خوشبو کے ساتھ اپنے گاہکوں کا خیرمقدم کرتی ہے۔
اس دکان کے پچھلے حصے میں قدم رکھا جائے تو وہاں پانچ سے چھ ورکروں کو مختلف اقسام کی مٹھائیوں کی تیاری میں مصروف دیکھا جاسکتا ہے۔
تاہم کونے میں ایک شخص کی جانب توجہ خودبخود مبذول ہوجاتی ہے، جو ایک کڑاہی میں کوئی خاص چیز تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
ان کے کپڑے پسینے سے تربہ تر ہیں، ایک ہاتھ سے وہ کفگیر کے ذریعے کڑاہی میں موجود اجزاء کو باہم یکجان کررہے ہیں، جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ اپنے چہرے کا پسینہ پونچھتے جارہے ہیں۔
یہ صاحب اس دکان کے ورکر نہیں ہیں، بلکہ اس دکان کا نام ان کے نام پر ہے۔ نثار ہوٹل۔ ان کا نام نثار احمد ہے۔
اڑسٹھ برس کی عمر میں نثار احمد ایک بدمزاج سیٹھ کی مانند دکان میں بیٹھے نہیں رہتے۔
وہ صبح تین بجے بیدار ہوجاتے ہیں اور دکان پہنچ کر تمام قسم کی مٹھائیاں اپنی نگرانی میں تیار کرواتے ہیں۔
تاہم انہوں نے ایک خاص مٹھائی کو اپنے ورکروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ رکھا ہے، یہ خاص برفی ہے جو ان کی دکان کی پہچان ہے۔
نثار احمد اس کاروبار سے 1968ء سے منسلک ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی اللہ یار، بیٹے ثناء اللہ اور بھتیجے افتخار احمد بھی ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
یہ میٹھی برفی جسے کھوئے اور شکر سے تیار کی جاتا ہے، ہر عمر کے لوگ پسند کرتے ہیں۔ یہ مکس مٹھائی کے ڈبے میں اہم شے سمجھی جاتی ہے۔
بچے اس کو شوق سے کھاتے ہیں، جبکہ بزرگوں کو بھی دودھ سے تیار کردہ یہ مٹھائی بہت مرغوب ہے۔
پنجاب میں چند ہی ایسے مقامات ہیں جنہیں بہترین برفی کی تیاری کے حوالے سے ملک بھر میں جانا جاتا ہے اور چکوال کا نثار ہوٹل ان میں سے ایک ہے۔
جب بھی کوئی فرد چکوال جاتا ہے تو ہمیشہ اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واپسی پر اس دکان کی برفی ضرور لے کر آئے گا۔
ناصرف پاکستان کےکونے کونے میں بلکہ دنیا بھر میں نثار ہوٹل کی تیار کردہ مٹھائیوں نے اپنا راستہ بنالیا ہے۔
عید کے موقع پر مٹھائی کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے، اس لیے کہ بہت سے لوگ تحائف کے تبادلے میں مٹھائیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
نثار ہوٹل کی کامیابی کی داستان جذبہ استقامت، لگن اور مسلسل محنت سے معمور ہے۔ نثار احمد کی کہانی صرف دلچسپ ہی نہیں بلکہ متاثر کن بھی ہے۔ انہوں نے اپنا کاروبار 1968ء میں محض پانچ کلو دودھ سے شروع کیا تھا۔
’’میرے والد اپنے آبائی گاؤں سدھار میں ایک دکان چلاتے تھے، جہاں وہ دیگر مٹھائیوں کے ساتھ برفی بھی فروخت کرتے تھے۔‘‘ نثار احمد اپنی دکان کے سامنے بیٹھے ہوئے اپنے ماضی کو یاد کررہے تھے۔ ان کے والد میاں خان گھر میں تیار کی گئی مٹھائیوں کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔
نثار احمد گاؤں میں اپنے والد کی دکان پر پارٹ ٹائم کام کرتے تھے، نویں جماعت سے انہوں نے پڑھائی چھوڑ دی اور نوشہرہ میں ایک فیکٹری پر بطور مزدور کام کرنا شروع کردیا۔
تاہم تین سال کے بعد انہوں نے وہ کام چھوڑ دیا اور 1968ء میں اپنے خاندان کے ساتھ چکوال میں آباد ہوگئے۔
وہ کہتے ہیں ’’میں نے ایک دکان صرف 70 روپیہ ماہوار کرائے پر حاصل کی اور پانچ کلو دودھ سے چائے بنانا شروع کردیا۔‘‘
نثار ماضی کو یاد کرتے ہوئے بولے ’’اس زمانے میں کوئی بھی شخص صرف بیس پیسے میں چائے کے ایک کپ سے لطف اندوز ہوسکتا تھا۔‘‘
چائے بنانے کے ساتھ ساتھ نثار احمد نے اپنی دکان پر برفی اور دیگر مٹھائیاں جیسے جلیبی، لڈو، ڈھوڈا اور گلاب جامن بھی تیار کرنا شروع کردیا۔
وہ ماضی کو یاد کرتے ہوئے کھو سے گئے اور بولے ’’ہم نے اپنی مٹھائیاں دیسی گھی میں تیار کرنی شروع کیں، اس وقت وہ چھ روپے کلو کے حساب سے فروخت ہوتی تھیں، ہم برفی چھ روپے کلو اور جلیبی دو روپے کلو کے حساب سے فروخت کرتے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’یہ وہ وقت تھا جب دودھ چالیس پیسے فی کلو فروخت ہوتا تھا۔ ‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ نثار احمد نے خود اپنے ہوٹل کو یہ نام نہیں دیا، بلکہ یہ نام ان کے گاہکوں کی وجہ سے پڑا، جنہوں نے ان کی دکان کو نثار ہوٹل کے نام سے پکارنا شروع کردیا تھا۔
انہوں نے کہا’’میں نے باقاعدہ طور پر اس نام کا بورڈ پانچ سال کے بعد نصب کروایا۔‘‘
اس وقت نثار ہوٹل پر چائے اور سموسے کے ساتھ بہت سی اقسام کی مٹھائیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ دہی کی ایک کٹوری کے ساتھ سموسے اس ہوٹل کا سب سے زیادہ چلنے والا آئٹم ہے۔
نثار احمد نے ڈان کو بتایا ’’تقریباً پچاس پچاس کلو برفی اور ڈھوڈا اور پندرہ سو سموسے روزانہ فروخت ہوجاتے ہیں۔ عید پر ہم 70 سے 80 کلو برفی فروخت کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر مٹھائیوں کی تیاری میں شامل رہتا ہوں اور یہی ہماری کامیابی کا راز ہے۔‘‘
نثار ہوٹل باقاعدگی کے ساتھ آنے والے طارق محمود کہتے ہیں ’’نثار ہوٹل ذائقہ کا زرخیز ورثہ ہے، جو چکوال کے باذوق شہریوں کے لیے ایک نعمت بن گیا ہے۔‘‘
ایک اور باقاعدہ گاہک مدثر زمان کہتے ہیں ’’مجھے تو صرف ان کی برفی پسند ہے۔‘‘