پشاور میں مقیم وزیرستان کے قبائلیوں کی امداد پر نظریں
پشاور: شمالی وزیرستان کے بہت سے قبائلی جو پشاور میں طویل عرصے سے مقیم ہیں، وہ مقامی طور پر رجسٹریشن کی سہولت حاصل کرکے سمجھ رہے ہیں کہ بے گھر افراد کے ساتھ انہیں بھی مالی امداد حاصل ہوسکے گی۔
ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو عسکریت پسندوں کے خلاف حالیہ فوجی آپریشن کی وجہ سے شورش زدہ قبائلی ایجنسی سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے، اپنے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پکڑے پیر کے روز اس رجسٹریشن سینٹر میں جمع تھے۔
خواتین بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
حیات آباد میں ایک سرکاری کالج پر قائم فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنت اتھارٹی (ایف ڈی ایم اے) کی جانب سے قائم کیے گئے اس مرکز پر بدانتظامی کی وجہ سے رجسٹریشن کا عمل متاثر ہورہا تھا۔
دس رجسٹریشن ڈیسک مردوں کے لیے اور چار خواتین کے لیے قائم کی گئی تھیں۔ حکام کو امید ہے کہ پانچ ہزار افراد کی یہاں سے رجسٹریشن کی جائے گی۔
نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کا ایک موبائل یونٹ بھی اس مرکز پر تعینات کیا گیا تھا، تاکہ موقع پر ہی بے گھر افراد کے لیے شناختی کارڈ بنایا جاسکے۔
نادرا کے حکام کا اصرار تھا کہ یہ موبائل یونٹ بے کار جائے گا، اس لیے کہ وہ بے گھر افراد کے شناختی کارڈز میرانشاہ کے پولیٹیکل ایجنٹ کی مدد کے بغیر تیار نہیں کرسکتے، جو اس بات کی تصدیق کریں گے کہ درخواست گزار اس علاقے کا رہائشی ہے۔
ایف ڈی ایم اے کے محمد حسیب نے بتایا کہ 65 ہزار بے گھر خاندانوں کا اب تک اندراج کرلیا گیا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ یہ تعداد نادرا کی جانب سے درخواست گزاروں کی تصدیق کے بعد کم ہوسکتی ہے۔
ایف ڈی ایم اے نے اعلان کیا تھا کہ میرانشاہ سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی پیر کے روز رجسٹریشن کی جائے گی جبکہ بویا اور دتّہ خیل سے آنے والوں کی آٹھ جولائی کو۔
رجسٹریشن کے اس مرکز پر میرانشاہ کے علاوہ دیگر علاقوں کے رہائشی بھی اس مرکز پر دشواریوں کے باوجود پہنچے ہیں۔
اس مرکز کے باہر انتظار کرنے والے لوگوں کو شکایت تھی کہ عملے کی کمی کی وجہ سے رجسٹریشن کا عمل انتہائی سست ہے۔
میرانشاہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے عبدالصمد نے بتایا کہ لوگ سورج نکلنے سے پہلے قطار بنائے کھڑے ہیں اور اس شدید گرمی میں اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رجسٹریشن کا عمل بہت تاخیر سے شروع ہوا ہے۔
بے گھر افراد کا کہنا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد جو پشاور میں دس سالوں یا اس سے زیادہ عرصے سے مقیم ہے، وہ بھی خود کو بے گھر افراد کی حیثیت سے رجسٹر کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہر شخص شمالی وزیرستان سے جاری ہونے والا شناختی کارڈلیے خود کو بے گھر افراد ظاہر کررہا ہے، جو کہ غیر منصفانہ طریقہ کار ہے۔
میرانشاہ کے ایک بزرگ ملک میر نواز نے بھی یہ شکایت کی کہ ایسے لوگ جو آپریشن سے پہلے یا بعد میں شمالی وزیرستان سے نکل گئے تھے، وہ بھی رجسٹریشن کے اس مرکز پر لائن میں کھڑے تھے۔
انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان کے ایسے رہائشی جو پشاور میں پانچ سال یا زیادہ عرصے سے مقیم ہیں، وہ بطور بے گھر افراد رجسٹریشن کا حق نہیں رکھتے۔
واضح رہے کہ پشاور میں بے گھر افراد کی رجسٹریشن کا عمل 14 جولائی تک جاری رہے گا۔
میر علی کے باشندوں کو 9 جولائی کو رجسٹر کیا جائے گا، ڈوسالی اور گریام سے آنے والوں کو دس جولائی کو، رزمک اور شوال سے آنے والوں کو گیارہ جولائی، غلام خان سے آنے والوں کو بارہ جولائی، اور باقی علاقوں سے آنے والوں کی رجسٹریشن چودہ جولائی کے روز کی جائے گی۔
حکومت نے اعلان کیا تھا کہ شمالی وزیرستان سے آنے والے ہر ایسے خاندان کو رمضان کے لیے چالیس ہزار روپے کی نقد امداد دی جائےگی جن کی رجسٹریشن ہوچکی ہوگی۔ اس کے علاوہ ہر بے گھر خاندان کو ہر ماہ دس ہزار روپے ادا کیے جائیں گے۔
ایک اہلکار کے مطابق حکومت اور ایک غیرملکی موبائل کمپنی میں معاہدے کے تحت یہ نقد امداد بے گھر افراد میں سم کارڈ کے ذریعے ادا کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف ڈی ایم اے نے رجسٹریشن کے بعد ایکٹیو سم کارڈ تقسیم کررہی ہے۔