انسدادِ پولیو پر مذہبی علماء کی بین الاقوامی کانفرنس
اسلام آباد: اسلامی ترقیاتی بینک کے زیراہتمام اتوار کو پولیو کے خاتمے پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز ہوا، جس میں بیرونِ ملک سے اسکالرز اور ملک بھر سے مذہبی پیشوا اور اساتذہ کے ساتھ وزارتِ صحت کے حکام شرکت کررہے ہیں۔
ایک پریس ریلیز کے مطابق وزیرِ مملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ نے پولیو کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں پر مذہبی پیشواؤں اور اسکالرز سے مدد اور رہنمائی کی درخواست کی ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا پولیو صرف تین مسلم ممالک نائجیریا، افغانستان اور پاکستان میں کہ معذوری کا سبب بن رہا ہے، جبکہ باقی دنیا بھر سے اس کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔
کانفرنس کے شرکاء میں سے ایک کے مطابق مفتی رفیع عثمانی نے کہا کہ ابلاغ کی کمی کی وجہ سے لوگوں کے درمیان اس حوالے سے بداعتمادی ہے اور لوگوں کی ایک بڑی نے اپنے بچوں کو یہ حفاظتی ویکسین نہیں دی ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ عوام کے اعتماد کو فروغ دینے کے لیے ویکسینیشن مہم کے دوران مقامی لوگوں کی خدمات حاصل کی جانی چاہیٔے۔ یہی وہ طریقہ ہےجس کے ذریعے عوام اس کو ایک طبّی مسئلہ سمجھنے لگ جائیں گے۔
مصر کے دارالافتاء کے مفتی اعظم محمد خضر نے کہا کہ وہ یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ آخر پاکستان میں کچھ لوگ اس ویکسینیشن کو قبول کرنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں، اگرچہ بہت سے فتوے جاری کیے گئے تھے۔
مولانا طاہر اشرفی نے نشاندہی کی کہ اس کانفرنس کے بہت سے شرکاء سورہے تھے، انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیٔے۔
ویکسین کی تیاری:
اس سے قبل اسلامی ترقیاتی بینک کے صدر ڈاکٹر احمد محمد علی المدنی نے کہا کہ ان کا ادارہ مسلم ممالک میں پولیوویکسین کی تیاری کے اقدامات کی حوصلہ افزائی پر غور کررہا ہے، تاکہ پولیو ویکسین کے متعلق اس تصور کا خاتمہ کیا جاسکے کہ یہ حرام ہے۔
انہوں نے کہا کہ 56 مسلم ملکوں میں سے صرف انڈونیشیا کے پاس اس ویکیسن کی تیاری کی صلاحیت موجود ہے۔
اسلامی ترقیاتی بینک کے صدر نے کہا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے چار سالہ مدت کے لیے بائیس کروڑ ستر لاکھ ڈالرز کا قرضہ پاکستان کودیا جارہا ہے، جس میں سے بیس فیصد کی ادائیگی حکومت کو کردی گئی ہے، اور باقی حصے کی ادائیگی سالانہ بنیاد پر کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اس قرضے کی دوفیصد حصے کی ادائیگی کررہی ہے، اور حکو مت اس قرضے کی رقم واپس کرے گی۔
ڈاکٹر احمد محمد علی المدنی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ پولیو ویکسین ایک مغربی ایجنڈا ہے اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اگر اس ویکسین کی تیاری مسلم ممالک میں شروع ہوجائے تو لوگوں کو اس بات پر قائل کیا جاسکتا ہے کہ یہ حلال ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ پولیو کے خاتمے کی یہ مہم کامیاب ہوجائے گی اور پاکستان جلد ہی پولیو سے پاک ملک بن جائے گا۔ پولیو کے خاتمے پر یہ بین الاقوامی علماء کانفرنس پاکستان میں اسی لیے منعقد کی جارہی ہے، تاکہ لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کیا جائے۔
ڈاکٹر مدنی نے کہا کہ دنیا بھر سے معروف مذہبی علماء کو اسی لیے مدعو کیا گیا ہے تاکہ لوگوں اس بات پر قائل کیا جائے کہ یہ ویکسین ہر بچے کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کا تحفظ ایک مذہبی ذمہ داری ہے اور والدین انہیں ویکسین پلوانے سے انکار کرکے ایک گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کانفرنس کے ذریعے وزیرستان کے ڈھائی لاکھ بچوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی ترقیاتی کانفرنس کے سربراہ نے کہا کہ اس بینک نے عالمی ادارۂ صحت اور دیگر عالمی تنظیموں سے رپورٹس حاصل کی تھیں، جن کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے پولیو کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی ترقیاتی بینک سے فائدہ اٹھانے والے ملکوں میں پاکستان دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، جسے اب تک مجموعی طور پر 8.5 ارب ڈالرز کی امداد موصول ہوچکی ہے۔ جبکہ 1.4 ارب ڈالرز کی مالیت کے منصوبوں کے لیے اس بینک کی امداد ابھی موصول ہونا باقی ہے۔
حکومتی عزم:
اسلامی ترقیاتی بینک کے سربراہ نے صدر ممنون حسین سے بھی ملاقات کی، جنہوں نے پاکستان اور دنیا بھر کے بچوں کو پولیو سے محفوظ رکھنے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پولیو کے خاتمے کو صحت کا ہنگامی مسئلہ قرار دیا تھا۔
صدر نے کہا کہ خصوصاً قبائلی علاقوں میں سیکیورٹی کے انتہائی چیلنجز کے باوجود پاکستان نے پولیو کے خاتمے کا ٹھوس عزم کر رکھا ہے اور اس سلسلے میں ہر ممکنہ اقدامات لیے جارہے ہیں۔
اے پی پی کے مطابق اس دو روزہ کانفرنس کے ذریعے مذہبی رہنماؤں کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستان میں اس مرض کے خاتمے کے لیے کس طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خاص طور پر کچھ برادریوں کے درمیان مذہب کے نام پر گمراہ کن اطلاعات پھیلائی گئی ہیں۔
کانفرنس کے شرکاء نے شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت ناقابلِ رسائی علاقوں میں بچوں تک پہنچنے میں علماء کے کردار پر تبادلہ خیال کیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے کراچی میں بچوں اور پولیو ویکسین کے ورکروں کے درمیان رکاوٹوں کے اسباب پر بھی غور کیا۔