پاکستان

سینتیس دنوں کی بھوک ہڑتال ختم کروانے میں وزیرِ اعلٰی ناکام

ڈاکٹر عبدالمالک نے بھوک ہڑتال پر بیٹھے طالبعلم کو یقین دلایا کہ ان کے ساتھی کے اغوا کا کیس بلوچستان حکومت درج کروائے گی۔

کراچی: بلوچستان کے وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ ان کی حکومت مارچ میں کوئٹہ سے اغوا ہونے والے ایک طلباء تنظیم کے رہنما کی بازیابی کے لیے ایف آئی آر درج کروائے گی۔

انہوں نے یہ یقین دہانی بلوچستان اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن آزاد (بی ایس او-اے) کے احتجاج کرنے والے ایک سرگرم کارکن لطیف جوہر سے ملاقات کے دوران کرائی۔

یاد رہے کہ لطیف جوہر پچھلے 37 دنوں سے کراچی پریس کلب کے سامنے بطور احتجاج بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک نے اس موقع پر کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔

اس احتجاجی کیمپ میں صحافیوں کے ہجوم کے ہمراہ بیٹھ کر ڈاکٹر عبدالمالک نے لطیف جوہر سے کہا ’’میں آپ سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنی جدوجہد ختم کردیں، لیکن آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی بھوک ہڑتال ختم کردیں۔ ہمارے لیے آپ دیگر بلوچ طالبعلموں کی طرح ہیں۔

بائیس اپریل کو لطیف جوہر کے بھائی بی ایس او آزاد کی چیئرمین زاہد بلوچ کو کوئٹہ کے علاقے سیٹیلائٹ ٹاؤن سے اُٹھالیا گیا تھا، اس کے بعد سے وہ بطور احتجاج بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے تھے۔

اس طلباء تنظیم کا الزام ہے کہ اس اغوا کے پیچھے انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہاتھ ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ جب تک ان کے رہنما کو رہا نہیں کردیا جاتا بھوک ہڑتال جاری رہے گی۔

اس وقت کیمپ میں موجود لطیف جوہر کے ڈاکٹر نے وزیرِ اعلٰی بلوچستان کو آگاہ کیا کہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران اس طالبعلم کا وزن بیس کلو تک کم ہوچکا ہے۔

وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک جو بی ایس او کے ایک سرگرم اور بعد میں چیئرمین بھی رہ چکے ہیں، نے کوشش کی کہ یہ طالبعلم اپنا احتجاج ختم کردے۔

انہوں نے مسلسل کارکنوں کا دفاع کیا جبکہ صحافیوں نے ان سے بلوچستان میں امن و امان سے متعلق سوالات کیے کہ اس شورش زدہ صوبے میں ’مارو اور پھینک دو‘ کی پالیسی پر عملدرآمد جاری ہے۔

اس موقع پر موجود بلوچ طالبعلموں نے وزیرِ اعلٰی کو بتایا کہ جو کچھ لطیف جوہر کے ساتھ ہوا، ایسا ہی معاملہ 13 سے زیادہ طالبعلموں کے ساتھ بھی ہوچکا ہے۔

ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ ’’میں زاہد بلوچ کو جانتا ہوں، اور ان کے ساتھ اس وقت کام کرچکا ہوں، جب میں ماضی میں بی ایس او کے ساتھ منسلک تھا۔ ہمارے نظریاتی اختلافات تھے، جن کی وجہ سے انہوں نے ایک دوسری تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ لاپتہ افراد کے معاملے کو حل کرنے میں میری کوششوں کا ساتھ دیں۔‘‘

اس وقت لطیف جوہر کے ساتھ بیٹھی ہوئی بی ایس او آزاد کی ایک طالبعلم کریمہ بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ ’’اس اغوا کو دو مہینے گزر چکے ہیں، اور اب تک سیٹیلائٹ ٹاؤن، کوئٹہ کے ایس پی اس معاملے کی ایف آئی آر درج کرنے کے لیے رضامند نہیں ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا ’’ہم کس طرح یقین کرلیں کے زاہد کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا، جو کچھ اس سے پہلے اغوا ہونے والوں کے ساتھ ہوا تھا؟ اگر اس کو کچھ ہوا تو ہم سب اس کے ذمہ دار ہوں گے۔‘‘

وزیراعلٰی نے یقین دہانی کرائی کہ ان کی حکومت اس کیس کی ایف آئی آر درج کرانے کی ذمہ داری لے گی اور ہم سے جو ممکن ہوگا ہم ہرطرح کی مدد کریں گے۔

نہایت کمزور دکھائی دینے والے لطیف جوہر کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے گہرے ہوگئے تھے۔ وہ اس وقت ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے سرگرم کارکنوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔

وزیرِ اعلٰی عبدالمالک کے بیان کے جواب میں لطیف جوہر نے کہا ’’ہمیں اسی طرح ماضی میں یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں۔ ہم اپنی ہڑتال اس روز ختم کردیں گے، جس روز انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک اہلکار یہ تسلیم کرلے گا کہ ہمارے چیئرمین اس کی حراست میں ہیں اور انہیں رہا کیا جارہا ہے۔‘‘

طلباء کو مطمئن کرنے کے لیے وزیرِ اعلٰی نے اس پٹیشن پر بھی دستخط کیے، جس میں کہا گیا تھا کہ اغوا کیے گئے کارکن کو رہا کیا جائے۔

بعد میں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں بلوچستان میں استحکام لانے کے لیے عوامی مینڈیٹ دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا ’’ آپ کا اپنا نکتہ نظر ہے، اور میرا اپنا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اختلافات پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں ۔‘‘

تاہم جب ایک رپورٹر نے ان سے یہ سوال کیا کہ پٹیشن پر دستخط کرنے سےآپ نے بھی احتجاجی کیمپ میں شمولیت اختیار کرلی ہے تو ڈاکٹر عبدالمالک ناراض ہوگئے اورلطیف جوہر سے یہ درخواست کرتے ہوئے کہ وہ اپنی بھوک ہڑتال ختم کردے،یہ ملاقات ختم کردی۔