'چوروں کا میلہ' اور 'بھولے بادشاہ'
اپنے عمران خان یا تو بہت بھولے بادشاہ ہیں یا پھر انھیں راج نیتی یعنی "طاقت کی سیاست" کو سمجھنے کی فرصت نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء اور جعلی ریفرنڈم کی حمایت پر وہ ایک دفعہ قوم سے علی الاعلان معافی مانگ چکے ہیں مگر آج کل یہی لگ رہا ہے کہ حضرت وہ 'مومن' ہیں جو دوسری بار ڈسے جانے کے لیے پھر سے تیار ہیں۔
کپتان صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ قوم انہیں ایک دفعہ معاف کر کے پچھلے انتخابات میں تیسری بڑی سیاسی جماعت کا درجہ دلوا چکی ہے لہٰذا اب معافی کی گنجائش 'نشتہ' ہے۔ سیاست کے میدان میں ایسا چانس کم کم ہی ملتا ہے۔
خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ چوہدری افتخار، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور میڈیا نے 'رل مل' کے 2013 میں جس انتخابی میلے کا انعقاد کروایا تھا وہ محض 'دیہاتی کی چادر' چرانے کا منصوبہ تھا اور وہ دیہاتی عمران خان تھے۔
کچھ سیانے تو بھولے کپتان کو اس دیہاتی سے تشبیہ دیتے ہیں جس نے پہلے تو بینک میں رقم رکھوانے کا فیصلہ کیا مگر بینک کے قائدوں سے تنگ آ کر اپنی رقم کو موزوں ہی میں رکھنا بہتر سمجھا۔ ایسا شخص رہزنوں سے رقم لٹوانے کے بعد اسے 'خدائی حکم' سمجھ کر بس صبرشکر ہی پر گذارا کرتا ہے۔
ایسے 'سادہ لوح' یاستدانوں کی ہمارے ہاں ایک طویل فہرست ہے جو بس موقع کی تاک میں رہتے ہیں اور دوسروں کو استعمال کرنے کے چکّر میں اکثر خود استعمال ہوتے ہیں۔ ہجرت، خلافت و عدم تعاون سے متاثرہ یہ وہی 'ذہین افراد' ہیں جن کے ہاتھ میں بقول جناح صاحب ایک ایسے بینک کا چیک ہوتا ہے جو خود کنگال ہو چکا ہے۔
کبھی اگر خدانخواستہ ایسے 'بھولے بادشاہ' کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو ان کی کامیابی ونسٹن چرچل جیسی ہی ہوتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سپر پاور تو امریکہ بن گیا اور چرچل جنگ جیتنے کی دہائیاں ہی دیتے رہ گئے۔ البتہ برطانیہ کے عوام اصل حقیقت جانتے تھے کہ حضرت چرچل نے انھیں کہاں مروایا ہے، چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے 1946 کے انتخابات میں چرچل کو مسترد کر کے لیبرپارٹی کو جتوا دیا تھا۔
حلوے میں اگر مٹھاس کم ہو تو سرکا ڈالنے سے مٹھاس ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ حلوہ ہی کھانے کے قابل نہیں رہتا۔ جمہوریت کا بھی یہی خاصا ہے کہ وہ 'زیادہ جمہوریت' کی متقاضی ہوتی ہے نہ کہ محلاتی سازشوں یا گھیراؤ جلاؤ پر انحصار کرتی ہے۔ مگر یہ بات خان صاحب کو کون سمجھائے گا؟ انھیں یہ بات 2025 میں سمجھ آئے گی کہ جب چڑیاں کھیت چک چکی ہوں گی۔
اگر ان کی بات مان بھی لی جائے کہ چوہدری افتخار، زرداری اور میاں صاحب 'رلے' ہوئے ہیں تو پھر وہ اس اتحاد میں 'جنرل کیانی' کے نام کو کیوں شامل نہیں کرتے؟ جس جمہوری تسلسل کو آج وہ داغدار کرنے چلے ہیں اس کے ایک اہم ترین سرخیل جنرل کیانی بھی تھے، مگر ان کا نام لینے سے دلیر کپتان بوجوہ کتراتے ہیں۔
خان صاحب کا اصرار ہے کہ وہ تو جمہوریت کو تگڑا کرنے کے لیے یہ تحریک چلا رہے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر انھوں نے 11 مئی کے تاریخی دن ہی کا انتخاب کیوں کیا؟
یہ تو وہ دن ہے جو اس 'پہلے جمہوری تسلسل' کی یادگار ہے جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ووٹوں کے ذریعہ وفاق و صوبوں میں پرانی منتخب حکومتیں گئیں اور نئی منتخب حکومتوں نے اقتدار سنبھالا. 65 سالوں میں یہ دن دیکھنے کی آرزو لیے کتنے ہی درد دل رکھنے والے پاکستانی راہی ملک عدم ہو چکے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ انتخابی عمل آزاد، غیرجانبدار اور شفاف ہو۔ مگر کیا اس کے لیے مولانا طاہر القادری اور شیخ رشید کے ساتھ مل کر حلوے میں سرکا ڈالنا ضروری ہے؟
سونے پی سہاگہ یہ کہ سرکا ایسے وقت ڈالا جارہا ہے جب افغانستان میں عبداللہ عبداللہ اور انڈیا میں نریندر مودی آنے کو پر طول رہے ہیں۔ اب آپ خود سوچیں اس نازک ترین دور میں یہ 'دور کی کوڑی' کون لایا ہے؟ یہ کس کے مفاد میں ہے؟
خان صاحب کو 2013 کے انتخابات میں نہ صرف قومی اسمبلی میں تیسری پوزیشن ملی ہے بلکہ ایک اہم صوبائی حکومت بھی۔ اب ان کی مخالفانہ سیاست کے زریں اصولوں کے ساتھ ساتھ لوگ یہ حق بھی رکھتے ہیں کہ اس صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ بھی کریں۔
اگر وہ صدق دل سے وہی چاہتے ہیں جس کا اظہار آج کل اپنے بیانوں سے کر رہے ہیں تو پھر 11 مئی کی بجائے کسی دوسرے دن کا انتخاب کریں اور شفاف، غیرجانبدار اور آزاد الیکشن کمشن ہی نہیں بلکہ میڈیا ریگولیشنز کے حوالہ سے متبادل تجاویز لے کر آئیں۔ ان تجاویز پر تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کریں اور پھر منتخب ایوانوں میں اس کے لیے جدوجہد کریں۔
اگر پچ خراب ہے تو اس کا قصوروار کھلاڑیوں یا تماشایوں کو تو نہیں قرار دیا جا سکتا اور نہ ہی خراب پچ کا بہانہ تراش کر 'کرکٹ' کو بند کیا جانا چاہیے۔
شیخ رشید اور طاہرالقادری کے پلّے تو گنوانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں سو ان کے 'انقلابی پن' کا راز تو سمجھ آتا ہے مگر خان صاحب اس کھوبے میں اپنی مقبولیت کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ 2013 کے انتخابات کے بعد انھیں 'اصغرخاں ثانی' کا خطاب ملنا بند ہو گیا تھا مگر اپنی حالیہ سیاست کے بل بوتے پر انھوں نے یہ اعزاز دوبارہ حاصل کرنے کی بھرپور کوششیں شروع کر دی ہیں۔
لیکن، یہ 2014 ہے کپتان صاحب! خلافت، ہجرت و قومی اتحاد کا زمانہ گذر چکا ہے، اب 'نیا راستہ' پاکستان کی بدل چکی سیاسی حقیقتوں کو تسلیم کرکے ہی نکل سکے گا، جس کا مطلب یہ کہ اس "نۓ پاکستان " میں اب جمہوریت کی بے توقیری کی قطعی کوئی گنجاش نہیں۔
آج بھی اگر عمران میڈیا اور الیکشن کمشن کے حوالے سے متبادل تجاویز لے کر منتخب سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی نمائندہ تنظیموں کے پاس جاتے ہیں تو ان کی بات میں وزن پڑ جائے گا مگر 11مئی کی ٹائمنگ اور "شیخ و قادری اتحاد" سے تاثر یہی مضبوط ہوتا ہے کہ وہ بند ہو چکے بینک کے پوسٹ ڈیٹڈ چیک پر ہی امید لگاۓ بیٹھے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔