پاکستان

'حکومت طالبان مذاکرات میں بداعتمادی اہم رکاوٹ ہے'

پروفیسر ابراہیم کا کہنا ہے کہ خودکش حملوں سے شریعت نافذ نہیں ہوسکتی، مذاکرات کی کامیابی کے لیے وہ پُرامید ہیں۔

مینگورہ: جماعت اسلامی کے صوبائی سربراہ اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم نے کل بروز اتوار کو اپنے بیان میں کہا کہ حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان براہِ راست مذاکرات کے انعقاد کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ امن کی بحالی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے مذاکراتی کمیٹی دونوں فریقین کی مدد کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔

پروفیسر ابراہیم نے جماعت اسلامی کے مقامی چیپٹر کے زیراہتمام ایک ڈونر کانفرنس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم دونوں فریقین کے درمیان بداعتمادی دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اسی طرح امن عمل میں تیزی پیدا ہوسکتی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت اور طالبان مذاکرات کے حوالے سے اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں، لیکن اعتماد کی کمی اس سلسلے میں اہم رکاوٹ ہے، اسی کی وجہ سے امن عمل کے آغاز میں مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ عسکریت پسندی ان دنوں اور ہفتوں کے دوران نمایاں نہیں ہے، جبکہ پچھلے بارہ سالوں کے دوران ملک امن و امان کی خراب صورتحال سے گزر رہا تھا۔

انہوں نے پرویز مشرف کی پالیسی پر الزام عائد کیا کہ جس کی وجہ سے ملک میں امن و امان کی صورتحال میں خرابیاں پیدا ہوئیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کو امن عمل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیٔے۔ انہوں نے یہ جنگ شروع کی تھی اور اس کے پُرامن خاتمے کے لیے ان پر ہی اہم ذمہ داریاں عائد ہونی چاہیئیں۔

انہوں نے کہا کہ اس بات پر تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے تھا کہ امن کی بحالی مذاکرات کے ذریعے کی جانی چاہیٔے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نو ستمبر 2013ء کو منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں وزیراعظم کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اس مسئلے کے پُرامن حل کے لیے اقدامات اُٹھائیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ حکومت اور فوج کے درمیان خلا پیدا کرنے کی کوششیں نہیں کررہے ہیں۔انہوں نے سیاسی جماعتوں سے کہا کہ وہ اپنی تشویش کے اظہار کے لیے میڈیا پر بیانات جاری کرنے کے بجائے مناسب پلیٹ فارم کا استعمال کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہاں البتہ جب فوجی اسٹاف اور چیف آف ایئر اسٹاف سیاسی بیان بازیاں شروع کردیں تو ہمیں وضاحت کے لیے بیانات جاری کرنے کا حق حاصل ہے۔‘‘

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ حکمرانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ حکومت اور فوج یکساں مؤقف رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’اگر یہ معاملہ ہے تو پھر یہ ایک عظیم کامیابی ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ امن کی بحالی ان کی شدید خواہش ہے اور اس مقصد کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا کہ نہ تو فوجی کارروائیوں کے ذریعے امن بحال کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی شریعت خود کش حملوں کے ذریعے نافذ کی جاسکتی ہے۔

ایک دوسرے سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ عمران خان نے گزشتہ سال عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج شروع کرنے کے بارے میں جماعت اسلامی کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی مہم میں حصہ لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے۔ اس سے سیاسی پختگی کی عکاسی نہیں ہوتی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ انہیں بھی صوبے اور فاٹا کے کچھ انتخابی حلقوں میں انتخابی نتائج پر تحفظات تھےلیکن اس معاملے کو اُٹھانے کے لیے یہ مناسب موقع نہیں تھا۔

پیپلزپارٹی:

پاکستان پیپلزپارٹی کے نوجوانوں اور خواتین کے مقامی ونگ نے پارٹی مرکزی قیادت سے مطالبہ کیاہے کہ برطرف کیے گئے تمام عہدے داروں کو بحال کیا جائے۔

اتوار کے روز ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے برطرف ڈویژنل صدر خورشید علی بہادر خیل اور پی پی پی وومن ونگ کی ضلعی صدر نسیم اختر نے الزام عائد کیا کہ خیبر پختونخوا کے پارٹی یونٹوں کو سازشی مشوروں کی پر تحلیل کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت کا یہ فیصلہ غیر جمہوری تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر ضلعوں پر پی پی پی کے پچھلے دورِ حکومت کے دوران مناسب توجہ نہیں دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ انہیں روزگار اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے سلسلے میں نظرانداز کیا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ وہ پی پی پی وومن ونگ کی سابق صوبائی صدر عاصمہ عالمگیر کی حمایت کررہے تھے۔

ڈان نیوز ٹی وی کی رپورٹ:

حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آج انعقاد کا امکان ہے۔ ڈان نیوزسے بات کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسرابراہیم نے ایک بار پھراس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے کوشش جاری رکھیں گے۔ .

اُن کا کہناتھا دونوں فریقین کو ایک دوسرے سے شکایات ہیں، تاہم تمام مسائل اور شکایات کو مذاکرات کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا کیونکہ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔

انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ جلد ہی کوئی درمیانی راستہ نکال لیاجائےگا۔

قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے پشاور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذاکراتی کمیٹیاں صرف بیانات کی حد تک نظر آرہی ہیں۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مذاکرات کے حوالے سے تمام پارلیمانی لیڈرز کواعتماد میں لیا جائے۔