پاکستان

بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف کارروائی کے لیے حکومت پُرعزم

وزیرِ مملکت عابد شیرعلی نے بتایا کہ نادہندگان کی اکثریت والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بیس گھنٹے تک کردیا گیا ہے۔

اسلام آباد: اربوں روپے کے بقایا واجبات کی وصولی کی کوشش میں دارالحکومت کی الیکٹریسٹی کمپنی نے منگل کے روز بہت سے اہم سرکاری محکموں کو بجلی کی فراہمی منقطع کرکے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ وہ بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف کارروائی کے حوالے سے پُرعزم ہے۔

اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) نے وزیراعظم سیکریٹیریٹ، ایوانِ صدر، سپریم کورٹ اور پاکستان سیکریٹیریٹ سمیت پانی و بجلی کی وزارت کے دفاتر کی بجلی بھی کاٹ دی۔

لیکن یہ بلیک آؤٹ زیادہ عرصے برقرار نہ رہ سکا اور سپریم کورٹ کو بجلی کی فراہمی، منقطع کیے جانے کے آدھے گھنٹے کے اندر اندر بحال کردی گئی۔

آئیسکو کے ترجمان باسط زمان نے ڈان کو بتایا کہ بجلی فراہمی پاکستان ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کی جانب سے بقایا بلوں کی ادائیگی کے بعد بحال کی گئی تھی۔

ملکی قیادت میں سے زیادہ تر بجلی کے منقطع کیے جانے سے متاثر نہیں ہوئے۔ جب وزیراعظم کے دفاتر کی بجلی منقطع کی گئی تو وہ پہلے ہی برطانیہ کے دورے کے لیے روانہ ہوگئے تھے۔

ایوانِ صدر میں اسٹینڈ بائی جنریٹرز نصب ہیں، اگر بجلی کی فراہمی میں تعطل آجائے تو ان جنریٹروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

پی ڈبلیو ڈی وزیراعظم کے سیکریٹیریٹ، چیف جسٹس اور کابینہ کے وزراء کے دفاتر کی دیکھ بھال اور ضروریات کا ذمہ دار ہے۔

ایوانِ صدر، پارلیمنٹ اور بیوروکریسی کی نشست پاکستان سیکریٹیریٹ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

باسط زمان نے کہا کہ ان کی کمپنی کو مختلف سرکاری محکموں کی جانب سے فون کال موصول ہورہی ہیں، جس میں کہا جارہا ہے کہ وہ جلد ازجلد اپنے بقایا جات ادا کردیں گے، ان کی بجلی فوری طور پر بحال کردی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ’’تاہم ہمیں اس بات کی سختی کے ساتھ ہدایت کی گئی ہے کہ جب تک واجب الادا بلوں کی رقم کے چیکس موصول نہ ہوجائیں، بجلی نہ بحال کی جائے۔‘‘

حکومت کا عزم:

بجلی منقطع کیے جانے کے بارے سے صحافیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے وزیرِ مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا کہ حکومت کسی کے بھی خلاف امتیازی سلوک نہیں کرے گی، اور بجلی کے چوروں اور نادہندگان کے خلاف کاروائی کے حوالے سے پُرعزم ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بجلی کے شعبے کی ٹیم کے ساتھ پیر کے روز انتہائی سخت انداز میں پیش آئے تھے اور ان کو تنبیہ کی تھی کہ واجب الادا بقایاجات کی وصولی کے کسی طرح کی نرمی سے کام نہ لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کی حکومت نے کھلے بندوں سرکاری شعبے کے پانچ ہزار صارفین کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا تھا، جو بجلی کی لائنوں سے غیرقانونی طور پر کنڈے ڈال کر بجلی حاصل کررہے تھے یا انہوں نے اپنے بلوں کی ادائیگی نہیں کی تھی۔

عابد شیرعلی نے کہا کہ بجلی کی کمپنیوں کے واجب الادا بقایا جات 475 ارب روپے تک جاپہنچے ہیں، جس میں موجودہ مالی سال کے کل بقایا جات 33 ارب روپے بھی شامل ہیں۔

پانی و بجلی کے وزیرِ مملکت کے مطابق سندھ پر بجلی کی کمپنیوں کے 56 ارب روپے کی ادائیگی بقایا ہے، پنجاب پر 3.4 ارب روپے اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں پر علیحدہ علیحدہ 2.5 ارب روپے واجب الادا ہیں ۔اس کے علاوہ لگ بھگ ستر ارب روپے بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کے مالکان سے وصول کیے جاچکے ہیں۔

انہوں نے کہا خیبر پختونخوا اور سندھ کے حصوں میں تقریباً نوّے فیصد بجلی کے کنکشن غیرقانونی تھے اور حکومت نے ان علاقوں کی نشاندہی کرکے جہاں نادہندگان کی اکثریت ہے، لوڈشیڈنگ کا دورانیہ اٹھارہ سے بیس گھنٹے کردیا ہے۔

عابد شیر علی نے کہا کہ ایسے علاقے جہاں واجب الادا بقایا جات کم سے کم ہیں، بجلی کے بحران کے عروج کے دوران صرف انہیں ہی چھ سے آٹھ گھنٹے لوڈشیڈنگ کی توقع رکھنی چاہیٔے۔