پاکستان

طالبان سے مذاکرات پر حکومت اعتماد میں لے، خورشید شاہ

حامد میر کے ساتھ جو ہوا اس پر افسوس ہے تاہم معاملے پر ایک ادارے کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں تھا، قائد حزب اختلاف۔

اسلام آباد: قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رکن خورشید شاہ نے منگل کے روز کہا ہے کہ وفاقی حکومت پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات پر کلیئر نہیں جبکہ اپوزیشن کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا جانا چاہئیے۔

ڈان نیوز کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کے دوران خورشید شاہ نے کہا کہ سینئر صحافی حامد میر کے ساتھ جو ہوا اس پر افسوس ہے تاہم معاملے پر ایک ادارے کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں تھا۔

خورشید شاہ نے کہا کہ نہ افواج پاکستان کے حق میں جلوس نکالنے چاہئیے اور نہ ہی میڈیا کے حق میں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا ایک ادارے کا روپ اختیار کرچکی ہے اور ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئیے۔

اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کا تحفظ پاکستان آرڈیننس کے خلاف عدالت میں جانے کا فیصلہ قبل ازوقت تھا۔

'تحریک انصاف کے پاس سیاسی تجربہ نہیں ہے، تب ہی 15 دن کے بعد عدالت جانے کا فیصلہ واپس لیا۔'

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسی ریلیاں نکلوا کر حکومت کو گھر چلتا کیا گیا، انجانے میں کوئی غلطی نہیں کرنی چاہئیے جس کا فائدہ کوئی اور لے جائے۔

عابد شیر علی کے حالیہ بیانات سے متعلق قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ انہوں نے تین صوبوں کو چور کا لقب دے دیا ہے، وزیراعظم نواز شریف نوٹس لیں۔

'اگر وزیراعظم نے نوٹس نہ لیا توسمجھا جائے گا ان کی مشاورت سے سب ہو رہا ہے، جاگ پنجابی جاگ کی سیاست نہ کی جائے۔'

خورشید شاہ نے کہا کہ وہ خارجہ پالیسی پر سیاستدانوں سے مشاورت کا مطالبہ کرتے ہیں۔

'سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو بلا کر وزیراعظم موجودہ حالات پر مشاورت کریں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ طاہرالقادری اسلام کے دائرے کو وسیع کرنے اور اسلام دشمنوں کے خلاف ریلی نکالیں اور ملک کے خلاف ریلی نہ نکالیں۔