پاکستان

'پاکستان دنیا بھر میں پولیو وائرس سے متاثرہ آخری ملک ہوگا'

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پولیو وائرس کے بدترین اثرات متواتر ظاہر ہورہے ہیں۔

لاہور: حالیہ رپورٹوں سے پاکستان میں پولیو وائرس کے خلاف جاری جنگ کی تاریک ترین صورتحال ظاہر ہوئی ہے۔

’’دنیا بھر میں پولیو کے متعدی مرض سے متاثر ہ آخری تین ملکوں کی فہرست میں پاکستان تاحال سرِ فہرست ہے، جہاں پولیو وائرس کے بڑے ذخائر موجود ہیں، یہ زمین پر آخری مقام ہوگا، جہاں پولیو کا مرض پایا جاتا ہوگا۔‘‘

یہ پریشان کن معلومات اسٹریٹیجک ایڈوائزری گروپ (ایس اے جی ای) کے ماہرین کے ایک اجلاس میں بتائی گئی، جو اس ماہ کے پہلے ہفتے میں عالمی ادارۂ صحت کے ہیڈکوارٹر میں منعقد ہوا تھا۔

ایس ای جی ای ویکسین اور حفاظتی ٹیکوں کے حوالے سے عالمی ادارۂ صحت کا بنیادی مشاورتی گروپ ہے۔

ایک حکومتی اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ اس ہفتے ایک اجلاس میں دنیا بھر میں پائی جانے والی بڑھتی ہوئی تشویش کا مختصر خلاصہ پیش کیا کہ پاکستان میں پولیو وائرس کے بدترین اثرات متواتر ظاہر ہورہے ہیں۔

مذکورہ اجلاس کی مکمل رپورٹ عالمی ادارہ صحت کے ہفت روزہ جریدے ایپی ڈیمولوجیکل (وبائی بیماریوں کا مطالعہ) ریکارڈ میں 23 مئی کو شایع ہوجائے گی۔

ایس ای جی ای کے اجلاس میں بتایا گیا کہ پولیو سے متاثرہ ممالک پاکستان، نائجیریا اور افغانستان میں پولیو کیسز کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ پاکستان باقی دو پولیو سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں اولین درجے پر ہے، جہاں اس سال اب تک پولیو کے بے قابو وائرس سے متاثرہ پچاس کیسز سامنے آچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل عالمی ادارۂ صحت نے پیش گوئی کی تھی کہ پولیو کے وبائی مرض سے متاثرہ ممالک میں ہندوستان آخری ملک ہوگا، یہ پیش گوئی اس کی آبادی کے حجم اور صحت سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی قابو سے باہر صورتحال کو دیکھتے ہوئے کی گئی تھی، لیکن ہندوستان نے پولیو سے پاک ملک کا درجہ حاصل کرکے دنیا کو حیران کردیا۔

مسلسل پولیو وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے پشاور، فاٹا اور کراچی اس اجلاس میں بحث کا مرکزی نکتہ بنے رہے۔

مذکورہ اہلکار نے عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان میں موجودہ صورتحال بارود کے ڈرم کی مانند ہے، جو کسی وقت دھماکے سے پھٹ جانے کی صورت میں بڑے پیمانے پر پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔‘‘

مزید یہ کہ بجائے اس صورتحال کو سنجیدگی سے لینے کے حکومت کی گرفت کمزور پڑتی جارہی ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ’’اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو پاکستان دنیا کا آخری ملک ہوگا، جہاں پولیو وائرس پایا جاتا ہے۔‘‘

عالمی ادارۂ صحت اور یونیسیف کے ساتھ پولیو کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی پارٹنرز کے مقامی دفتر کی مرتب کی گئی ایک دوسری رپورٹ میں پچھلے ہفتے پولیو ویکسین پلوانے سے انکار کے کیسز اور پولیو کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے حوالے سے ایک خطرناک صورتحال کا انکشاف کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’دنیا بھر میں پاکستان ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ پولیو کیسز سامنے آرہے ہیں اور یہ صورتحال مسلسل برقرار ہے۔ اس سال افغانستان تین جبکہ نائجیریا میں ایک پولیو کیس کے ساتھ پاکستان سے پیچھے ہے۔‘‘

مذکورہ اہلکار کا کہنا ہے کہ اس ہفتے پاکستان میں پولیو کے پانچ نئے کیس رپورٹ کیے گئے، جن میں سے دو خطرناک پولیو وائرس ٹائپ 1-WPV1، اور تین سرکولیٹنگ ویکسین ڈرائیوڈ پولیو وائرس ٹائپ 2-cVPV2 ہے۔ چار کیسز فاٹا میں اور ایک کراچی میں گڈاپ کے علاقے سے رپورٹ کیا گیا۔

حکام کو یہ جان کر شدید جھٹکا لگا کہ کل پچاس بچوں میں سے جو اب تک خطرناک پولیو وائرس سے مفلوج ہوچکے ہیں، ان میں سے چالیس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہیں پولیو کی ایک بھی خوراک نہیں پلائی گئی تھی۔

اکتالیس کیسز فاٹا میں رپورٹ کیے گئے، آٹھ خیبر پختونخوا سے، اور تین سندھ سے۔ بلوچستان اور پنجاب میں پولیو کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا۔

رپورٹ میں یونیسیف اور عالمی ادارۂ صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد غیر متوقع طور پر تیزی کے ساتھ بلند ترین سطح پر جاپہنچی ہے، جنہیں پولیو ویکسین نہیں پلائی گئی ہے۔

یہ تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پولیو ویکسین پلانے سے انکار کے سات سو کیسز رپورٹ کیے گئے، پنجاب میں راولپنڈی کے 250 سمیت 404 کیسز، سندھ میں 386، فاٹا میں 269 اور بلوچستان میں پولیو ویکسین پلوانے سے انکار کے 251 کیسز پولیو ویکسینشن کی پچھلی مہم کے دوران رپورٹ کیے گئے۔

پچھلے برسوں کے دوران سامنے آنے والے پولیو کیسز کا موازنہ کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپریل 2011ء کے آخر تک پاکستان میں پولیو کا ایک کیس رپورٹ کیا گیا، 2012ء میں دو اور 2013ء میں بارہ کیسز ، لیکن اپریل ہی کے مہینے میں اس سال سامنے آنے والے پولیو کیسز کی تعداد سو گنا زیادہ ہے۔

راولپنڈی کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ وہ پشاور کے بعد دوسرے نمبر پر ہوگا، اس لیے کہ یہاں بھی پشاور کی طرح فاٹا، باجوڑ ایجنسی، شمالی اور جنوبی وزیرستان، مہمند ایجنسی اور افغانستان سے نقل مکانی کرکے آنے والے خاندانوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔

پشاور کو پولیو وائرس کی ترسیل کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا گیا تھا۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پشاور کی وادی کو اس کی گنجان آبادی کی وجہ سے پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا مرکزی انجن سمجھا جاتا ہے، شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ پشاور سے بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل و حرکت اس پورے خطے میں اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ہوتی ہے۔