عورتوں کے خلاف محاذ
یہ بات کہ ہماری خواتین ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرتی ہیں، ہر طرح کی مشکلات کے باوجود برابری کی جنگ کے بارے میں ایک سادہ سی حقیقت یہ ہے:
تمام مذہبی عناصر اپنے عقیدے کے بنیادی اصولوں کو لے کرتو ایک دوسرے کے سخت خلاف ہیں لیکن عورتوں کو دبانے اور ان کے حقوق کو، جو بہرحال ان کے ہیں، غصب کرنے کی اعلانیہ خواہش کے حوالے سے سب متفق ہیں-
کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کی بچپن کی شادیوں کو جائز قرار دینے اور ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دینے کے بارے میں حالیہ سفارشات کے بعد، کافی مبصرین نے کونسل کے چیرمین مولانا شیرانی پر اعتراض کی بوچھاڑ کردی- جن کا تعلق جے یو آئی ایف سے ہے جنہیں پچھلی حکومت نے اس عہدے کیلئے نامزد کیا تھا-
لیکن اگر مولانا، جن کا تعلق دیوبندی فرقے سے ہے جن میں عموماً برداشت کی کمی ہوتی ہے، اس بات پر تنقید کا نشانہ بنے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ ان کی ذاتی سفارشات تھیں، اگرچہ کہ، بریلوی یا شیعہ علماء وغیرہ کی جانب سے، جو سی آئی آئی کی طرح مذہبی نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں، کوئی بھی اختلافی نوٹ ریکارڈ پر نہیں تھا- اگر میری اطلاعات غلط نہیں ہیں، توایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ متفقہ تھا-
کیا ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہونگے کہ ہمارے ملک میں مذہبی نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، نہ ہی بدلتی ہوئی دنیا اور سماج کے ساتھ ہماری کوئی ہم آہنگی ہے- ہماری سونچ آج بھی کئی صدی پیچھے پھنسی ہوئی ہے- یہ سوال آج لوگ بےچینی سے پوچھ رہے ہیں اور میں نہ مذہبی عالم ہوں اور نہ دینی معاملات کا ماہر-
ہمارے معاشرے میں مذہب کے زیادہ رول کے وکلاء کہتے ہیں " حریت فکر، آزادی اور انصاف" کی مذہب میں زیادہ گنجائش ہے- حالانکہ، اس کے پیروی کرنے والے اورخصوصا اس کی تبلیغ کرنے والوں کی جانب سرسری نظر ایک ایسی بھیانک تصویر پیش کرتی ہے جس کے بارے میں جتنا کم کہا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا-
بلوچ قبائلی ورثہ کے سرخیل جیسے کہ زہری وغیرہ کے بیانات ریکارڈ پر ہیں جن میں وہ واضح طور پر عورتوں کے قتل کو، ان کو زندہ دفن کرنے، ان کو گولیوں کانشانہ بنا نے یا کلہاڑیوں سے انہیں ختم کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں، جن کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنی پسند کا انتخاب کرنا چاہتی تھیں، محبت کی شادی کرنا چاہتی تھیں، بجائے اس کے کہ کسی فرسودہ قبائلی رسم یا زمین کی ملکیت کو مستحکم کرنے کیلئے خاموشی سے اس سودے کے تیار ہو جائیں -
اندرون سندھ اور بلوچستان میں پنچائتیں نہ صرف یہ کہ عزت کے نام پر شرمناک قتل کی حمایت اور ہمت افزائی کرتی ہیں بلکہ قرون وسطیٰ کا ذہن رکھنے والے کلہاڑہ بازوں کی حفاظت بھی کرتی ہیں-
آج کے الیکٹرونک میڈیا کے دور میں بھی جب کوئی چیز ابہام کے اندھیروں میں زیادہ دیر کیلئے گُم نہیں ہوسکتی ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں-
چاہے یہ مذہب کی تشریح "علماء" کی جانب سے ہو یا قبائلی، فیوڈل اور سرداری نظام کی روایات سے، ان سب کا ایک ہی مشترکہ مقصد ہوتا ہے: عورتوں پر مکمل کنٹرول اور ان کا استعمال بطور ایک چیز کے اور ان کے اس اشتراک کا مقصد عورت کا مکمل استحصال ہے-
جب سے تصدق حسین جیلانی اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں اور عدالت کے اندر اور باہر جس وقار کے ساتھ چیف جسٹس کے طور پر عہدہ برا ہوتے ہیں، میں نے اسے ہمیشہ سراہا ہے- یہ اس بھدے روئیے کے بالکل برعکس ہے جس سے ان کے پیش رو اکثر لوگوں کو بیوقوف بناتے تھے-
اس ہفتے کے شروع میں، ایک چینیل ایک بریکنگ نیوز نشر کررہا تھا جس میں چیف جسٹس، ایک نوجوان خاتون امینہ، کی ماں سے سے کہہ رہے تھے کہ وہ ہر اس شخص کو عدالت میں طلب کرلینگے جوان کی طرف ایک آنکھ بھی اٹھائیگا انہوں نے اس کیس اور خاندان کو دھمکیوں کے خلاف سوؤموٹو نوٹس لیا تھا-
کیا آپ کو امینہ یاد ہے؟ اس نے کہا تھا کہ پنجاب کے ایک چھوٹے شہر میں اس کا ریپ ہوا تھا اور جب پولیس نے ان لوگوں کو تحقیقات کے بعد بغیر الزم کے رہا کردیا تھا جس کا مقصد ان کو بےقصور قراردینا تھا، امینہ نے احتجاجاً اپنے آپ کو آگ لگا کر جلالیا تھا- وہ بچ نہ سکی اور چند دنوں کے بعد مر گئی تھی-
رانا ثنااللہ، پنجاب کے ضمیر اور امن کے رکھوالے ( مبینہ طور پر ہر قسم کے تشدد پسندوں کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں جس میں فرقہ وارنہ عناصر بھی شامل ہیں ) اس حادثہ کے فوراً بعد ایک چینیل پر آکر اس عورت کو جھوٹا قرار دیا کہ اس عورت کا ریپ نہیں ہوا ہے بلکہ اس پر حملہ ہوا ہے یا اسی طرح کی کوئی دوسری ایسی ہی مضحکہ خیز بات-
پنجاب کے ان اہم وزیرصاحب کی سونچ معاشرے کے اسی مردانہ رویہ کا عکس تھی جہاں عورت ایک ناقابل اعتبار اور مشکوک شخصیت ہے چاہے اس پر حملہ ہوا ہو یا اس کا ریپ ہوا ہو کیونکہ اس کی شکایت ایک خطرے کے طور پر دیکھی جاتی ہے: کہ اس میں ناانصافی اور تفریق کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت ہے-
جب میں یہ سب لکھ رہا ہوں، ایک نوجوان عورت کا خون آلود چہرہ میرے خیالات پر چھایا ہوا، میری آنکھوں کے سامنے ہے- ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وہ ایک پولیس اسٹیشن میں جن لوگوں کے خلاف رپورٹ درج کروانے گئی اس پر ایک کتا چھوڑ دیا گیا اور وہ بھی پولیس اسٹیشن کے کمپاؤنڈ کے اندر!
کسی نے بھی اس کی مدد نہیں کی- اس کے باوجود اس عورت نے کتے سے اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح بچالیا- ایک دن بھی نہیں گذرتا ہے جبکہ آپ کسی عورت پرتیزاب کے حملے کے بارے میں نہیں پڑھتے ہوں کسی کی محبت کو ٹھکرانے کی پاداش میں/ کسی کی شادی کی تجویز سے انکار کرنے پر- اس کی اتنی ہمت، ہر کسی کا ایک ہی ردعمل محسوس ہوتا ہے-
کیا ایک ایسے معاشرے میں جہاں زندگی اور اس کی حقیقتیں لاتعداد عورتوں کیلئے اتنی کڑوی اور سخت ہوں وہاں کام کے برابر معاوضہ کی بات کرنا کوئی معنی رکھتا ہے؛ یا اس عورت کیلئے، جو بیک وقت کئی ذمہ داریوں کے بوجھ اٹھاتی ہے، گھریلو ذمہ داریوں کے سارے بوجھ کےساتھ پیسہ کمانے کی ذمہ داری بھی، ایک بہتر تصفیہ اور عزت کی وکالت کرنے کی ضرورت کا بھی کوئی فائدہ ہے؟-
کاش کہ ساری سیاسی جماعتیں خواتین کیلئے برابری اور تحفظ کے قوانین کے نفاذ کیلئے اتنا ہی متحد ہوتیں جتنا ان دہشت گردوں کی مدد کرنے کیلئے ہیں جنہوں نے سارے پاکستانیوں کو دکھ اور تکلیف سے دوچار کیا ہے- جو پولیس خواتین کے خلاف جرائم روکنے میں ناکام ہوتی ہے اسے یونیفارم پہننے کا حق نہیں ہے- یہی، شاید، بڑے اہداف حاصل کرنے کی طرف پہلا قدم ہونا چاہئے-
ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری ۔
عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔