پاکستان

سابق چیئرمین پیمرا کا برطرفی کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

چوہدری رشید کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مؤکل کی برطرفی کے خلاف آج پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔

اسلام آباد: پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ( پیمرا) کے حال ہی میں برطرف ہونے والے چیئرمین چوہدری رشید نے اپنے برطرفی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

چوہدری رشید کے وکیل حافظ عرفات احمد نے گزشتہ روز اتوار کو کہا کہ 'ہم پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کرکے برطرفی کے فیصلے کو چیلنج کریں گے'۔

یاد رہے چوہدری رشید کا پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ سال چھبیس جون کو بطور چیئرمین پیمرا تقرری کیا تھا، جبکہ حال ہی میں 17 اپریل کو صدر ممنون حسین نے انہیں ان کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔

چوہدری رشید اور حکومت کے درمیان تنازعات موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد ہی ابھر کر منظرِ عام پر آگئے تھے۔ حکومت نے متعدد اداروں کے ان سربراہان کو برطرف کردیا تھا جن کی تقرری پیپلزپارٹی کے دور میں ہوئی تھی۔

چوہدری رشید کے وکیل کا کہنا تھا کہ 'ان کے مؤکل کی برطرفی کسی بھی حکومتی اہلکار برطرفی کی ایک بدترین مثال ہے، جن کو اس طرح سے نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ مستقبل میں کسی بھی سرکاری عہدے پر کام نہیں کرسکتے اور ساتھ ہی ان فوائد سے بھی محروم کیا گیا جو حکومتی عہدیدار اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد حاصل کرتا ہے'۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ چوہدری رشید بائیس گریڈ سے ریٹائرمنٹ کے بعد چیئرمین پیمرا کی خدمات سرانجام دے رہے تھے، جبکہ ان کی برطرفی کا اطلاق ان کی ریٹائرمنٹ پر نہیں، بلکہ صرف حکومتی خدمات پر ہوتا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ 'خدمات اور کارکردگی کے 1973ء کے قوانین کے تحت چوہدری رشید کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا جس کا اطلاق صرف سول ملازمین پر ہوتا ہے'۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سابق چیئرمین پیمرا کو یہ موقع نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے اوپر عائد الزامات کی وضاحت کرسکیں۔

چوہدری رشید کے وکیل کا کہنا تھا کہ بظاہر حکومت اپنے پسند کے شخص کو اس عہدے پر فائز کرنا چاہتی ہے اور اس نے گزشتہ سال پندرہ دسمبر کو چوہدری رشید کی ملازمت ختم کرکے راؤ تحسین کو قائم مقام چیئرمین پیمرا بنا دیا تھا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں اگلے ہی روز دوبارہ بحال کرتے ہوئے اس وقت کے قائم مقام چیئرمین کی تقرری کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ان کی برطرفی کا طریقہ کار اپنایا نہیں گیا اور اس کے لیے انہیں شوکاز نوٹس اور ساتھ ہی ایک وضاحتی چارج شیٹ جاری کرنا ضروری ہے جس میں بتایا جائے کہ ان کی سروس کیوں ختم کی جارہی ہیں۔

ذرائع کے مطابق عدالت کی جانب سے انہیں تحفظ فراہم کرنے کے کچھ ہی عرصے کے بعد حکومت نے عدالتی حکم کی پیروی کرتے ہوئے ایک شوکاز نوٹس اور چارج شیٹ جاری کردی تھی۔

اگرچہ عدالت نے انہیں ان کے عہدے پر بحال کردیا تھا، لیکن حکومت نے ان کے تمام اختیارات کو ختم کردیا اور ادارے کے معاملات کو چلانے کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔اس پر چوہدری رشید کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں ان کے اختیارات چھیننے سے متعلق مؤقف اپنایا گیا تھا، تاہم اس درخواست پر عدالت نے ابھی تک فیصلہ نہیں سنایا۔