پاکستان

حکومت،طالبان مذاکرات کا تازہ دور متوقع

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ ایک میٹنگ کا مطالبہ کیا ہے۔
|

اسلام آباد: حکومت پاکستان طالبان مذاکرات کاروں کے ساتھ امن بات چیت کے نئے دور کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

حکام نے جمعہ کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کے جنگ بندی کے انکار کے باوجود حکومت امن مذاکرات کے لیئے پر عزم ہے، اور اس ہفتے کے آخر میں یہ عمل متوقع ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مذاکرات کمیٹی کے ساتھ ایک میٹنگ کا مطالبہ کیا ہے جس میں مذاکراتی عمل کو بڑھانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ صرف بات چیت سے ہی تحفظات اور اعتراضات کو دور کیا جاسکتا ہے لیکن انہوں نے خبر دار کیا کہ جنگ بندی کے بغیر اس میں پیش رفت کے امکانات کم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "اگر طالبان کو بعض اعتراضات ہیں تو ہمیں بھی تحفظات ہیں"۔ انہوں نے کہا کہ حکومت تعطل کو ختم کرنے کے لیئے امن کے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے۔

چوہدری نثار نے اس بات کو دہرایا کہ "جنگ بندی کے بغیر امن مذاکرات میں پیش رفت ممکن نہیں"۔ ساتھ ہی وہ طالبان مذاکرات کے پرزور حامی بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مولانا سمیع الحق کی زیر قیادت تحریک طالبان پاکستان کی تین رکنی مذاکراتی کمیٹی، سے ملاقات کریں گے.

ایک سینئر عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کو بھی بات چیت میں شامل کرنے کا امکان ہے۔

جمعرات کو قومی سلامتی پر ہونے والے اجلاس میں سول اور فوج کی اعلٰی قیادت نے عسکریت پسندوں کے ساتھ امن بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔

وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں قومی سلامتی کابینہ کمیٹی کے ایک اہم اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔

حکومت طالبان بات چیت کا آغاز فروری میں ہوا تھا جس کا مقصد سات سالوں سے جاری تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کا خاتمہ تھا تاہم اس میں ابھی تک کوئی واضح پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

بدھ کے روز عسکریت پسندوں نے جنگ بندی میں مزید توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ان کے مطالبات ماننے میں ناکام رہی ہے اورمبینہ طور پر ان کے ساتھیوں کی ہلاکت اور فوجی آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے اعداوشمار کے مطابق گزشتہ سات سالوں میں پاکستان بھر میں بم دھماکوں اور مسلح حملوں میں تقریبا چھ ہزار آٹھ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔