نقطہ نظر

بہادر صحافی محاذ کی اگلی صفوں میں

صحافیوں کیلئے جنگ زدہ علاقے ہمیشہ انتہائی خطرناک ثابت ہوئے ہیں- یہ ایک ایسا خطرہ ہے جو اس پیشہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

صحافیوں کیلئے جنگ زدہ علاقے ہمیشہ انتہائی خطرناک ثابت ہوئے ہیں- یہ ایک ایسا خطرہ ہے جو اس پیشہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے ' غلط وقت، غلط جگہ' اگلی صفوں والے صحافی کے لئے ایک ناگزیر خطرہ ہے- لیکں حالیہ برسوں نے اس عمل میں خطرناک تیزی دیکھی ہے جس میں صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے-

بہت سارے صحافیوں کا ہر سال ان فساد زدہ علاقوں میں مرنا کسی کو بھی لمحہ بھر سوچنے، بلکہ پریشان ہونے پر مجبور کردیگا- یہ خبرسننا بڑی دل شکن بات ہے کہ ایک عزیز ہم پیشہ ساتھی کسی قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گیا-

میرے لئے یہ اسی طرح کا ایک لمحہ تھا جب میں 4 اپریل کی صبح کو نیویارک میں اٹھا اور یہ بھیانک خبر میری منتظر تھی کہ میری گہری دوست اور 25 سال سے میری ساتھی افغانستان میں ایک قاتل کی گولیوں کا شکار ہوگئیں- شکر کی بات یہ ہے کہ کیتھی گینن زخمی ہونے کے باوجود بچ گئیں، لیکن ان کی فوٹوگرافر انجا نائی ڈرنگ ہاؤس اتنی خوش قسمت نہیں تھیں- وہ فوراً ختم ہوگئیں اور ان کا نام بھی صحافیوں کی اس لمبی، بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل ہوگیا جو محاذ پر رپورٹنگ کرتے ہوئے مارے گئے-

یہ شوٹنگ مشرقی افغانستان کے شہر خوست میں ہوئی جہاں یہ دونوں صحافی خواتین ایسوسی ایٹڈ پریس کیلئے صدارتی انتخابات کی خبریں اکٹھا کررہی تھیں- خبر کے مطابق ایک افغان پولیس کمانڈر نے ان کی گاڑی پر رائفل سے گولی چلائی-

حالیہ مہینوں میں کئی مقامی اور غیرملکی صحافی افغان باغیوں کے ہاتھوں ٹارگیٹڈ حملوں میں مارے گئے ہیں، جس سے ایک خطرناک رجحان کا تاثر ملتا ہے- غیرملکی صحافیوں کو ٹارگیٹ کرنے کا ایک بڑا مقصد تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے ان کو پبلسٹی ملتی ہے دوسرے یہ کہ جب افغانستان اپنی تاریخ میں سیاسی تبدیلی کے ایک بے حد اہم لمحے سے گذر رہا ہے صحافیوں کو ڈرا دھمکا کر اس سے دور رکھا جائے -

پچھلے مہینے، سوئیڈش صحافی نیلس ہورنر کو افغان دارالحکومت میں نشانہ لگا کر مارا گیا- تقریباً ایک ہفتے بعد، چار بندوق بردار افراد کابل کے سیرینا ہوٹل میں گھسے اور بھرے ہوئے ریسٹورنٹ میں ہجوم پر اندھا دھند گولی چلادی اور ایک مشہور افغانی صحافی سردار احمد کو قتل کردیا- سردار احمد کئی غیرملکی خبروں کے نیٹ ورک کیلئے کام کرتے تھے-

لیکن خوست کا حملہ ایک بالکل مختلف انداز کی علامت تھا- یہ حملہ کرنے والا یونیفارم میں ایک پولیس افسر تھا، رپورٹروں کیلئے یہ ایک الگ قسم کے خطرے کی طرف اشارہ ہے جو اس جنگ زدہ ملک سے خبریں اکٹھا کرتے ہیں- اس وقت تک، صرف باغی افغان سپاہیوں کا ٹارگیٹ غیرملکی فوجی تھے- جسے" گرین آن بلیو" (Green on Blue) واقعات کہتے تھے لیکن اب تو افغان سیکیورٹی فورسز کے اندر جو باغی عناصر گھس آئے ہیں انہوں نے اپنی بندوقوں کا رخ نرم اہداف کی جانب کردیا ہے-

کیتھی اور انجا پچھلے کئی ہفتوں سے افغانستان میں سفر کررہی تھیں اورایسے بغاوت زدہ علاقوں کی خبریں رپورٹ کررہی تھیں جہاں دوسرے صحافی جانے سے کتراتے ہیں- کافی عرصے سے افغانستان کے وقائع نگار کی حیثیت سے دونوں کو خطرہ کا پوری طرح سے اندازہ تھا لیکن بغیر کسی دشواری کے وہ یہ کام کرتی رہیں دونوں کا متنازعہ علاقوں میں کام کا وسیع تجربہ تھا اور وہ اپنی بےخوف رپورٹنگ کے لئے جانی جاتی تھیں-

کئی برسوں سے، کیتھی اس تیزی سے بڑھتی ہوئی طالبان بغاوت کے بارے میں لکھتی رہی ہیں- انہیں یقیناً یہ بات پتہ تھی کہ ایک مغربی صحافی کیلئے دور افتادہ علاقوں کا سفر کتنا خطرناک ہے خصوصاً جبکہ طالبان نے فیصلہ کن صدارتی انتخابات میں گڑبڑ کرنے کیلئے پرتشدد حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے- انتہائی خطروں کے پیش نظر بھی انجا اور اس کے مضبوط ارادوں میں کوئی کمزوری نہیں آئی-

اپنی ناقابل تسخیر طبیعت کے مطابق، صدارتی انتخابات کی مہم کی خبروں کیلئے کیتھی نے خوست کا انتخاب کیا، طالبان کا دورافتادہ مرکزی علاقہ- اور یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ یہ دونوں تجربہ کار صحافی اس علاقے میں گئے ہوں لیکن ہاں سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی کے حوالے سے حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے ہیں- انہوں نے اپنے آپ کو غلط جگہ پر غلط وقت میں پایا-

کیتھی تقریباً تین دہائیوں سے افغانستان کے بارے میں خبریں مہیا کررہی ہے اور بلا شبہہ ایک انتہائی معتبرنامہ نگار کے طور پر زمینی حالات کے بارے میں اس کی سمجھ بےمثال ہے- وہ اکیلی غیر ملکی صحافی تھیں جو امریکی قیادت میں اتحادی فوجوں کے حملے کے وقت کابل سے رپورٹنگ کررہی تھیں- محاذ سے براہ راست ان کی کہانیوں سے دنیا کو افغانستان میں امریکہ کی جنگ کا حال معلوم ہوا-

کیتھی جب پچھلے مہینے افغانستان کیلئے روانہ ہوئیں تو بے انتہا جذباتی ہورہی تھیں- یہ ایک تاریخی لمحہ ہے اورایک بڑا واقعہ ہے- انہوں نے کہا، وہ مجھے قائل کرنے کی کوشش کررہی تھیں کہ میں بھی ان کے ساتھ چلوں- ہم نے کئی مرتبہ افغانستان کا سفرایک ساتھ کیا تھا- میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں جلد ہی ان سے ملوں گا لیکن میں اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکا- اس واقعہ سے ایک ہفتہ قبل میری ان سے آخری بار بات ہوئی تھی، جب انھوں نے مجھے افغانستان کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا- میں نے سوچا کہ مجھے وہاں ہونا چاہئے تھا-

میری ملاقات انجا سے کیتھی نے کرائی تھی- ایک نہایت خوش مزاج اور زندہ دل شخصیت، ہمیشہ مسکراتی ہوئی، ان کے پاس بوسنیا، عراق سے افغانستان تک کے متنازعہ علاقوں کی بہت دلچسپ کہانیاں تھیں جنہیں وہ شیئر کرنا چاہتی تھیں- وہ سرائیوو میں کسی کی گولی کا نشانہ بنی تھیں؛ بلغراد میں ایک اجتماع کی خبراکٹھا کرتے ہوئے ان کا پیر ایک پولیس کار سے ٹوٹ گیا تھا؛ اور کساوو میں گاڑی پر گرینیڈ کے حملے میں اُڑ کے باہر گری تھیں-

ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ 2002ء سے انجا 11 فوٹو جرنلسٹس کی ٹیم میں واحد خاتون تھیں جنہوں نے عراق میں جنگ کے بارے میں 2005ء کا پلٹزر انعام بریکنگ نیوز کی کٹیگری میں حاصل کیا- جب انہوں نے 4 اپریل 2014ء کو اس فیصلہ کن سفر کا قصد کیا تو ان کو کیا معلوم تھا کہ وہ خود بھی ایک بریکنگ اسٹوری بن جائیں گی-

" کسی فوٹوگرافر کا ورثہ اس کی کھینچی ہوئی تصویر میں اُس لمحہ کو، اور تاریخ کو ریکارڈ کرنے کی اس کی صلاحیت ہوتی ہے-میرے لئے یہ فرد کی جدوجہد اور اس کی بقا کو دکھانے کا معاملہ ہے" یہ انجا کی خود اپنی تحریر ہے جو نائیمین رپورٹس کی بہار 2012ء کے شمارہ میں تھی، جسے ہارورڈ یونیورسٹی کی نائیمین فاونڈیشن فار جرنلزم شائع کرتا ہے-

کیتھی جرمنی کے ایک ہسپتال میں صحت یاب ہورہی ہیں اور جو ان کو جانتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ وہ جلد ہی میدان میں واپس آجائیں گی- لیکن شاید یہ سب پہلے کی طرح نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے اپنی بہترین ساتھی کو اپنے سامنے مرتے ہوئے دیکھا ہے- بہادرترین صحافی، جو میں نے آج تک دیکھے ہیں، یہ دونوں ایک جان تھے جو کہانیوں کی تلاش میں دنیا کے مشکل ترین متنازعہ علاقوں میں جانے کو تیار رہتے تھے- انجا تمہاری کمی ہمیشہ محسوس ہوگی، لیکن تمہاری بہادری کا ورثہ ہمیشہ زندہ رہے گا-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری ۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔