افغانستان کا سنگ میل
عام طور پر کابل سے اچھی خبریں کم ہی ملتی ہیں اور شائد یہی وجہ تھی کہ گزشتہ سنیچر کو ہونیوالے صدارتی اور لوکل کونسل کے انتخابات نے جوش و خروش کی فضا پیدا کردی-
ابتدائی اندازوں کے مطابق حق رائے دہی رکھنے والی آبادی کے تقریباً 60 فی صد نے ووٹ ڈالے،جو کہنا چاہیئے کہ اچھی خاصی تعداد ہے----اور خاص طور پر اس لئے بھی کہ بین الاقوامی میڈیا اس میں گہری دلچسپی لے رہا تھا، کیونکہ انتخابی عمل میں حصہ لینے والے تمام افراد کو طالبان سے انتقامی کارروائیوں کی دھمکیاں مل رہی تھیں-
شکر ہے کہ انتخابات تشدد کے کسی بھیانک واقعہ کے بغیر گزر گئے-انتخابات کے دن تک طالبان نے بہت سے موقعوں پروقتاً فوقتاً یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ افغان دار الحکومت میں گھس آئنگے جسے محفوظ علاقہ سمجھا جاتا ہے-چنانچہ سیکیورٹی بڑھادی گئی،جس کا انتظام زیادہ تر افغان فوجیوں کے ذمہ تھا ،اور شائد یہی رکاوٹ کا بڑا سبب تھا ----گرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ طالبان نے یہ حکمت عملی اپنائی ہو کہ وہ وقتی طور پر قوت کا مظاہرہ نہیں کرینگے-وجہ کچھ بھی رہی ہو ،نتیجہ خوشگوار رہا-
لیکن ظاہر ہے کہ سب کچھ اتنا ہموار بھی نہیں تھا-اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ملک بھر میں پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز کم پڑگئے تھے، یہ رپورٹیں بھی آئیں کہ ڈبوں میں ووٹ بھرے جارہے ہیں اور بعض علاقوں میں ووٹروں کو دھمکیاں بھی دی گئیں----لیکن یہ سب کچھ کتنے بڑے پیمانے پر ہوا،اندازہ لگانا مشکل ہے-
اسی طرح یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ حامد کرزئی کی جگہ کون لے گا، جو 2001 سے مغربی طاقتوں کی حمایت سے صدارت کے منصب پر براجمان تھے، جنھوں نے 2004 اور 2009 کے متنازعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی-قریب ترین امکانات یہ نظر آتے ہیں کہ مقابلہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہے، جو سابق وزیر رہ چکے ہیں، الیکشن کے نتائج کے بعد اگلے مہینہ دوبارہ مقابلہ ہوگا-
کرزئی نے بظاہر کسی بھی امیدوار کی حمایت نہیں کی، لیکن انھوں نے اپنے بھائی قیوم کرزئی کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لیں اور زلمے رسول کی حمایت کریں ----جو ابتدائی نتائج کے مطابق تیسری پوزیشن پر تھے-
امریکہ بھی کسی خاص امیدوار میں دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دیتا، لیکن اس کی بھی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ اسے سابق وزیر مالیات اور ورلڈ بینک کے ملازم غنی، یا عبداللہ پرکیا اعتراض ہوسکتا ہے ،جو شروع میں کرزئی کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں لیکن بعد ازاں حیرت انگیز طور پر 2009 کے انتخابات میں مضبوط صدارتی امیدوار کے طور پر ابھرے تھے، یہ وہی سال تھا جب امریکہ کے سابق ڈیفنس سکریٹری رابرٹ گیٹس کے مطابق، واشنگٹن کرزئی سے جان چھڑانا چاہتا تھا، جس کے لئے ایک"بھدی اور ناکام شورش"کے ذریعے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی تھی-
گزشتہ مہینے دی واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کرزئی نے 2007 میں اپنے بنیفیکٹر-ان-چیف کے ساتھ اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا، اور اس پر الزام لگایا تھا کہ اس کی وجہ سے سیویلین ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے اور یہ کہ ان کے امریکی اتحادیوں نے ان کے احتجاج کو نظرانداز کردیا تھا- انھوں نے امریکہ کے صدارتی بیانات پر بھی اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی جن میں یہ کہا گیا تھا کہ فوجیں بھیجنے کا اصل مقصد امریکی سیکیورٹی کے مفادات تھے-
اس کے علاوہ کچھ اور سمجھنا سادہ لوحی ہوگی، خاص طور پر 1980 کی دہائی کے تجربہ کے بعد،یا یہ امید کرنا کہ امریکہ کی سربراہی میں ہونیوالی مداخلت دنیا کے مختلف علاقوں میں ہونیوالی سابقہ ناکام فوجی مہموں سے مختلف ہوگی- بہرحال معاملات اس وقت بگڑ گئے جب کرزئی نے گزشتہ سال ایک دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جس کا مقصد اس انتظام کو باضابطہ شکل دینا تھا کہ اس سال وسیع تر انخلا کے بعد بھی کچھ امریکی فوجیں وہاں مقیم رہیں گی-
بارک اوباما نے دھمکیاں بھی دیں اور دعویٰ کیا کہ جب تک کرزئی معاہدہ پر دستخط نہیں کرینگے،2014 کے اختتام تک ایک ایک امریکی سپاہی وہاں سے جاچکا ہوگا- لیکن آخرکار انھوں نے نظریں جھپکالیں، اور یہ تسلیم کرلیا کہ کرزئی کے جانشین اس پر دستخط کرسکتے ہیں-
گزشتہ مہینہ افغان صدر نے پوسٹ کو بتایا کہ وہ اپنا موقف اس صورت میں تبدیل کرسکتے تھے کہ امن کا سلسلہ چل پڑتا- کابل اور واشنگٹن ----جو ہمیشہ ہم خیال نظر نہیں آتے---حالیہ برسوں میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے امکانات پر غور کرتے نظر آتے ہیں، اگرچہ کہ اس میں کوئی خاص کامیابی دکھائی نہیں دیتی- طالبان کو تقسیم کرنے کی کوششوں میں بھی کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہوئی-
35 سال کے لگاتار جھگڑوں کے بعد نارمل حالات کی جانب افغانستان کی پیشقدمی کا تعلق لازمی طور بڑی حد تک اسکے پڑوسیوں کے طرز عمل پر ہے-----اور سب سے بڑھ کر پاکستان پر، جسکی انٹر سرویسز انٹیلیجنس ایجنسی 1980 کی دہائی میں افغانستان کے معاملات میں گہرائی سے ملوث رہی ہے،اور جس پر الزام ہے کہ وہ آج بھی وہاں کے حالات پر اثرانداز ہونا چاہتی ہے، خاص طور پر طالبان کے مختلف دھڑوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے ذریعے-
جغرافیائی سیاسی عوامل اور طالبان کی دہشتگردی کے علاوہ، افغانستان کو دیگر بے شمار مسائل کا سامنا ہے- گزشتہ دہائی میں بچوں کی شرح اموات میں نمایاں کمی ہوئی ہے، ابتدائی تعلیم میں اضافہ ہوا ہے، لیکن افلاس اور غیر متوازن غذا کا مسئلہ آج بھی گمبھیر ہے، بدعنوانی کا دور دورہ ہے اور افیون کی کاشت توقع سے زیادہ جاری ہے-
گزشتہ ہفتہ منعقد ہونوالے انتخابات پر خوشیوں کے اظہار کی وجہ سمجھی جاسکتی ہے لیکن، افسوس کہ، یہ خوشی قبل از وقت دکھائی دیتی ہے- اقتدار کی پرامن تبدیلی-----جس میں مزید چند مہینے لگ سکتے ہیں---یقیناً ایک سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے، لیکن یہ ایک ایسی راہ ہے جو فی الوقت غیر یقینی حالات کے دلدل میں پھنسی دکھائی دیتی ہے-
ترجمہ : سیدہ صالحہ
لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: mahir.dawn@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔