پاکستان

بجلی کی قلّت۔ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری

ڈیموں سے پانی کے اخراج میں کمی کے علاوہ ایندھن کی قلت کی وجہ سے دوہزار سات سو میگاواٹ کے پاور پلانٹس بند ہیں۔

لاہور: جیسے جیسے ملک کے زیادہ تر حصوں میں درجۂ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ کی جانب بڑھ رہا ہے اور آبپاشی میں کمی کی وجہ سے ملک کے دو بڑے ڈیموں سے پانی کا اخراج کم ہوگیا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ ہی کو بجلی کی قلت بھی بڑھتی جارہی ہے، اور جمعرات کو بجلی کی کمی چھ ہزار میگاواٹ تک جا پہنچی تھی، جس سے حکام کو بارہ سے اٹھارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ پر مجبور ہونا پڑ گیا ہے۔

پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے حکام کے مطابق یہ بجلی قلت کا یہ تعین پچھلے دو دنوں میں کیا گیا ہے۔

اس تاریک صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پانی کے اخراج میں کمی آئی ہے، درجۂ حرارت میں اضافہ ہوا ہے اور دوہزار سات سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس ایندھن کی قلت کی وجہ سے بند کردیےگئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ طویل عرصے سے جاری دو اہم مسئلوں نے آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے۔ پچھلے کئی مہینوں سے بلوں کی وصولی صرف چھیاسی فیصد تک رُک گئی ہے، چنانچہ تقریباً تیس کروڑ روپے روزانہ کے حساب سے بقایا جات پھنسے ہوئے ہیں۔

سرِ فہرست حکومت کی جانب سے سبسڈی کی ادائیگی میں تاخیر ہے۔ بتیس ارب روپے کے بقایاجات میں سے صرف دس ارب روپے حکومت کی جانب سے تقریباً دس دن پہلے ادا کیے گئے تھے، اور بائیس ارب روپے باقی رہ گئے ہیں۔ گزشتہ دس دنوں میں آٹھ ارب روپے کی رقم اس بل میں مزید شامل ہوگئی ہے، چنانچہ کل رقم تیس ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔

پیپکو کے ایک اہلکار نے بتایا ’’یہی دو عوامل ہیں، جن کی وجہ سے بجلی کے منصوبہ ساز یہ پلانٹس چلانے کے قابل نہیں ہیں۔‘‘

تقریباً تین ہزار میگاواٹ کی تھرمل پاور کی پیداواری صلاحیت میں سے جمعرات کے روز پیپکو صرف تیرہ سو پچاس میگاواٹ بجلی پیدا کررہی تھی۔ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی جانب سے چھ ہزار چار سو میگاواٹ کی پیدوار رہ گئی ہے اور ہائیڈل پاور پروجیکٹ سترہ سو میگاواٹ بجلی پیدا کررہے ہیں، یوں کل پیداوار تقریباً نو ہزار پانچ سو میگاواٹ ہے۔

پیپکو کے ایک سابق سربراہ نے کہا کہ ’’حکومت سمیت ہر ایک یہ بات جانتا ہے اور تسلیم بھی کرتا ہے کہ آنے والا موسمِ گرما نہایت سخت ہوگا۔ پھر بھی گرمیوں سے پہلے معاملات کو درست کرنے میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔پورا شعبہ ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جارہا ہے۔‘‘

گزشتہ تیرہ مہینوں کے دوران حکومت کی توجہ بجلی کی پیداوار کے شعبے میں سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے پر مرکوز تھی، جبکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ ایک طویل مدتی عمل ہے۔ چنانچہ حکام کی توجہ اس جانب مرکوز رہی اور سسٹم کی کارکردگی کے حوالے سے منصوبہ بندی پر توجہ ہٹ گئی۔

حکومت بھول گئی کہ کارکردگی کو بہتر بنا کر مسائل کا جزوی حل نکالا جاسکتا ہے۔ یوں کاکردگی کو بُری طرح نظرانداز کردیا گیا۔

ان تیرہ مہینوں کے دوران اس شعبے کی سولہ اہم کمپنیوں میں سے کسی کو بھی مستقل سربراہ نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ ڈیپارٹمنٹس کے سربراہوں کا بھی مسلم لیگ نون کی حکومت کی جانب سے ایڈہاک، اضافی یا پھر قائم مقام کے چارج کے ساتھ تقررکیا گیا۔

پیپکو کے سابق سربراہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت ان پالیسیوں کو ہی جاری رکھنا چاہتی ہے، جن کی وجہ سے پہلے مسائل پیدا ہوتے رہے ہیں، تو وہ کس طرح بہتر نتائج کی توقع کرسکتی ہے۔