نقطہ نظر

مسلسل فوجی مداخلت

اگر حکومت کا کام یہ نہیں کہ وہ بزنس کرے تو پھر فوج کا بھی یہ کام نہیں کہ وہ سیویلین تجارت میں مداخلت کرے-

لگ بھگ 2007ء تک، جب بھی یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان کا مضبوط ترین ادارہ کونسا ہے؟ تو فوراً جواب ملتا: 'فوج'-

جواب بالکل غیر مبہم تھا اور اس کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں تھی- آزادی کے بعد تقریباً چھ دہائیوں تک، پاکستان کی ملٹری، خاص طور پر اسکی فوج، ملک کی سیاسی معیشت پر چھائی رہی-

تاہم،2007 کے بعد سے، صرف اس سوال کے تعلق سے نہ صرف زیادہ ابہام موجود ہے، بلکہ اسکے ایک سے زیادہ جوابات دیئے جاسکتے ہیں- اگرچہ فوج آج بھی طاقتور ہے، اسے اس بات پر مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ کم از کم دو بلکہ تین اداروں کے ساتھ طاقت میں حصہ بٹائے، جو بجا طور پر اور واقعی طاقتور ہونے کے دعویدار ہیں---ہوسکتا ہے وہ غالب درجہ نہ رکھتے ہوں، لیکن اس کوشش میں ہیں کہ انھیں طاقت مل جائے جس کے دعویداروں کی تعداد مٹھی بھر ہے-

فوج کی بالادستی پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، اور 2007 سے اسے وہ ادارے چیلنج بھی کر رہے ہیں جو ابھی تک ایسا کرنے سے قاصر رہے تھے-عدلیہ، پارلیمنٹ اور کسی حد تک میڈیا نے عوامی اور سیاسی میدان میں اپنی آزادی اور خودمختاری ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، جسکے نتیجے میں فوج کو ایک طرف ہٹا دیا گیا ہے اور انھوں نے اپنے لئے جگہ بنا لی ہے-

عدالت عظمیٰ اور(اب ریٹائرڈ) پاکستان کے چیف جسٹس 2008 سے تصفیئے دیتے آئے ہیں جن میں ملٹری کو ایک ادارہ کے طور پر، اور اس کے علاوہ بر سرکاری اور ریٹائرڈ سینیئر افسروں کو آئین شکنی کا مرتکب ٹھیرایا گیا ہے اور بعض افراد کے اقدامات کو غداری سے تعبیر کیا گیا ہے-

اگرچہ بعض فیصلے اور تصفیئے ابھی زیر التوا ہیں اور ان پر نظر ثانی ہورہی ہے، اور بعض فیصلے جو ہو چکے ہیں اس کے تحت ابھی تک متعلقہ افسروں کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ عدلیہ، جو حال تک اپنے مخالف-جمہوری سیاسی موقف اور فیصلوں میں فوج کے ساتھ تھی، اب اس پوزیشن میں ہے کہ فوج کو چیلنج کرے اور خود اپنے جمہوری اور آزادانہ موقف کا اظہار کرے، جسکی ایسے ملک میں بڑی اہمیت ہے جس نے اس طرح کے جارحانہ رویہ کا تجربہ نہ کیا ہو

پارلیمنٹ نے بھی 2008 کے بعد سے اپنی آزادانہ زور آزمائی شروع کردی ہے، اگرچہ، افسوس کہ، اس حد تک نہیں کہ اپنے اس حق کو جتا سکے کہ اسے حکومت کرنے کا حق حاصل ہے اور فوج کی بالادستی کو چیلنج کرے- میڈیا جو اس تبدیلی میں، زیادہ تر شریک کار رہا ہے، جمہوری طاقتوں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار رہا ہے کہ وہ فوج کو اسکے ماضی کے جمہور-دشمن رویہ اور موقف کو ختم کرے، جس کا طاہرالقادری نے اپنے ڈرامائی کھیل میں انکشاف کیا تھا-

پاکستانی سیاست کے میدان میں پاکستان کی فوج کی غیر متنازعہ بالادستی کو کامیابی سے چیلنج کیا گیا ہے اور فوج جسکو غالب حیثیت حاصل تھی، اب غالباً محض ایک ایسے کھلاڑی کی حیثیت رکھتی ہے جو اپنا ویٹو استعمال کرسکتی ہے، جو پاکستان کی سیاسی معیشت میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہے-

ایک ایسے ملک میں، جہاں فوج کو چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے تک بالادستی حاصل رہی ہے، فی الحال کسی ایسے ادارہ کی غیرموجودگی جسے واضح غلبہ حاصل ہو، غیر معمولی صورت حال کو ظاہر کرتا ہے-اب عوام کی نظروں میں فوج کی وہ حیثیت نہیں رہی، نہ ہی پاکستان کی سیاسی معیشت کے توازن میں اسے پہلے والا درجہ حاصل ہے-

ایسے کافی اشارے ملتے ہیں کہ فوج کی بالادستی کو ضرب لگی ہےاور سب سے زیادہ تو، خود سابقہ جنرل پرویز مشرف پر فرد جرم کا عائد کیا جانا جو اسکی بڑی علامت ہے- لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ اس قسم کی تبدیلیوں میں جہاں سیویلین اداروں کو بالادستی حاصل ہو اور فوج پیچھے کی طرف ہٹ جائے برسہا برس لگ سکتے ہیں-

ان ملکوں میں کی جانے والی اکیڈمک ریسرچ سے، جہاں فوجی حکومتیں دو یا تین دہائیوں تک کی طویل مدت کے لئے مسلسل جاری رہتی ہیں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو سیویلین بالادستی کو قبول کرنے میں آٹھ سے دس سال تک لگ جاتے ہیں جسکے بعد اسکی سپریم طاقت ختم ہوتی ہے-

مثلاً، انڈونیشیا میں، فوج کو محض کلیدی فیصلوں کو ویٹو کرنے کی طاقت سے دستبردار ہونے کے لئےتقریباً ایک دہائی کا عرصہ لگ گیا- ہمارے ملک میں سیویلین تبدیلی کو آئے ہوئے ابھی تو چھ سال بھی پورے نہیں ہوئے ہیں، اور ہماری سرحدوں اور پاکستان کے اندر جو جنگ جاری ہے فوجی مداخلت کے لئے نارمل' ممالک کے مقابلے میں زیادہ جواز موجود ہو

پاکستان کی تجارتی پالیسی کو تہ و بالا کرنے میں فوج کی تازہ ترین مداخلت اس بات کی علامت ہے کہ اگرچہ فوج کا اثر و نفوذ کم ہوگیا ہے، فوج پر سیویلین بالادستی ہنوز نامکمل ہے- فوج کو یہ حق کیوںکر حاصل ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ پاکستان کس ملک کے ساتھ تجارت کرسکتا ہے؟

سیویلین کنٹرول کے تحت فوج کو چاہیئے کہ وہ صرف ان مسائل کی طرف توجہ دے جسکا تعلق پاکستان کی سلامتی اور سرحدوں سے ہے، نہ کہ اس بات سے کہ لوگ کیا خریدیں اور کیا فروخت کریں، یا کس ملک سے وہ مال خرید سکتے ہیں یا فروخت کرسکتے ہیں- گو کہ بہت سے ادارے بتدریج سیویلین کنٹرول میں آرہے ہیں، اسے اب بھی بعض شعبوں میں فوج کی جاری بالادستی کی مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے-

اخباروں کی رپورٹوں کے مطابق جی ایچ کیو نے اہم معاشی وزراء کی ایک میٹنگ 'منعقد' کی جس میں مالیات، تجارت، پانی اور بجلی کے وزراء بھی موجود تھے اور انھیں فوجی قیادت کو مطمئن کرانا تھا کہ آیا پاکستان کو ہندوستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا چاہیئے یا نہیں-

وزارت تجارت نے یہ دلیل پیش کی کہ اس سے نہ صرف پاکستانی صارفین کو فائدہ پہنچے گا بلکہ جی ڈی پی میں دو فی صد کا اضافہ ہوگا اور تجارت شروع ہونے کے تین سال میں پانچ لاکھ ملازمتیں پیدا ہونگی-

ایک مشہور کہاوت میں تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ ہم یہ کہہ سکتے ہیں: اگر حکومت کا کام یہ نہیں کہ وہ بزنس کرے تو پھر فوج کا بھی یہ کام نہیں کہ وہ سیویلین تجارت میں مداخلت کرے-

شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی معیشت اور اسکے عوام کو ہندوستان کے ساتھ تجارت کے دروازے کھول کر نمایاں فائدہ ہوسکتا ہے- یہ بات ظاہر ہے کہ پاکستان کی پرانی فوجی سونچ کو عوام کے مفادات یا ملک کی معیشت کے مفادات سے کوئی خاص سروکار نہیں ہے- لیکن یہ تو ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے-

اسکے نسبتاً تنگ اور محدود کارپوریٹ مفادات نے پاکستانی معاشرے، معیشت اور سیاست کو بھاری نقصان پہنچایا ہے اور سیویلین حکومتوں کواسکی مختلف غلط مہم جوئیوں اور غلط سرگرمیوں کا بھاری بوجھ برداشت کرنا پڑا ہے- صرف ایک مضبوط تر سیول سوسائٹی اور، خاص طور پر، ایک پراعتماد سیاسی اور جمہوری نظام ہی فوج کی مسلسل جاری مداخلت کو ختم کرسکتا ہے-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ : سیدہ صالحہ

ایس اکبر زیدی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔