نقطہ نظر

وکلاء کا سدھار

قانونی نظام کے درست کام کرنے کیلئے بار کی آزادی اور خودمختاری اتنی ہی ضروری ہے جتنی عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری-

حالیہ برسوں میں ، وکلاء کا فضول بہانوں سے ہڑتال پر جانا، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اور ججوں کو ہراساں کرنے رپورٹیں معمول بن گئی ہیں- تاہم، پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے معاملے پر کسی حد تک خاموشی اختیار کئے رکھی کہ جیسے یہ واقعات اس کی توجہ کے مستحق نہیں-

یہ سب حالیہ دنوں میں تبدیل ہوا جب سپریم کورٹ نے شیخوپورہ میں ایک وکیل کے خراب طرزعمل کا نوٹس لیا اور بار کونسلوں اور لیگل پریکٹیشنرز ایکٹ 1973 کے تحت وکلاء کے لئے تجویز کردہ پروفیشنل اخلاق اور آداب کا ازسرنو جائزہ لینے کے اپنے ارادے کا اشارہ دیا تا کہ وکلاء میں بہتر نظم و ضبط برقرار رکھا جائے- آخر سپریم کورٹ کا دل تبدیل کیوں ہوا؟ اور اس کے ممکنہ ایکشنز کے ملک کے قانونی نظام پر کیا ممکنہ اثرات مرتب ہوں گے؟

سپریم کورٹ کی جانب سے وکلاء کے طرزعمل کا نوٹس لینے کی ٹائمنگ کو سمجھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس پس منظر کو یاد کریں جہاں سے اس (خراب) طرزعمل کی ابتدا ہوئی- مارچ 2007 سے پہلے، سوائے چند مشہور قانونی شخصیات کے، وکلاء کسی حد تک ایک گروپ ہوا کرتے تھے، جنھیں جانتے بھی وہ صرف وہی لوگ تھے جو ان سے براہ راست رابطے میں آتے تھے اور وہ بھی انہیں بہت اہمیت نہیں دیتے تھے- تاہم، پھر شروع ہوئی وکلاء تحریک یا لائرز موومنٹ جس کی وجہ سے وکلاء سب کی نگاہوں کا مرکز بن گئے- انہیں نہ صرف پورے ملک میں جانا جانے لگا بلکہ خطرناک بات تو یہ ہوئی کہ اان میں اپنی اہمیت کے حوالے سے ایک نام نہاد احساس بھی پیدا ہو گیا جسے وہ اپنے موکلوں کو عدالتوں سے انصاف دلانے کے لئے استعمال کرنے کے بجائے سڑکوں پر اپنی طاقت کے اظہار کرنے کے لئے استعمال کرنے لگے- سول سوسائٹی، میڈیا اور عدلیہ کی مشترکہ توجہ اسی جانب تھی اور وکلاء ان میں شامل تھے-

حتیٰ کہ جب لائرز موومنٹ ختم بھی ہو گئی تب بھی وکلاء کے ایک خاص طبقے نے دھول دھپے کے زور پر کامیابی حاصل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی بجائے اس کے کہ وہ اپنی کامیابی کا رستہ عدالتوں کے خشک، غیر متوقع اور تھکا دینے والی دنیا میں تلاش کرتے-

اس وقت بھی، چند سمجدار آوازوں نے وکلاء کے پروفائل میں اس تبدیلی کے خطرات سے خبردار کیا تھا-

تاہم، بار کونسلوں نے، 1973 کے ایکٹ کی طرف سے لازمی ہونے کے باوجود ان وکلاء کے خلاف انضباطی کاروائی نہیں کی جو پروفیشنل یا دیگر مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے اور دوسری جانب دیکھنے کی ترجیح دی اور ان وکلاء کو اپنی بار کا حصہ بنائے رکھا تا کہ آنے والے بار الیکشنز میں اپنا ووٹ بینک برقرار رکھا جا سکے-

زیادہ فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے خاموش رہ کر بار کونسلوں کے رویے کی توثیق کی- اس نے اپنی توجہ لائرز موومنٹ میں وکلاء کے کردار پر مرکوز رکھی بجائے اس کے کہ وہ انہیں قانون اور موکلوں کے حوالے سے ان کے فرائض کی انجام دہی کی یقین دہانی کراتی- اس پر اس نے یہ سب کچھ نچلی عدالتوں کی قیمت پر کیا جن میں سائیڈ لائن اور الگ تھلگ کئے جانے کا احساس مسلسل بڑھتا گیا-

وقت گزرنے کے ساتھ عدالتی تجزیہ کاروں کی سمجھ میں آ گیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے اس رویے کی واحد ممکنہ وجہ ایک شخصیت میں مرکوز تھی؛ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمّد چوہدری جو کہ عدلیہ کی بحالی کو نہ صرف ذاتی کامیابی گردانتے تھے بلکہ اسے ممکن بنانے کیلئے وکلاء کے احسان مند اور مشکور بھی تھے-

اپنی اس "کونسٹیٹوئنسی" سے اپنے تعلقات خوشگوار رکھنے کے چکر میں انہوں نے وکلاء کے خراب طرز عمل پر کبھی تبصرہ تک نہیں کیا گو کہ نچلی عدالتیں مسلسل اس کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں-

یہ حقیت کہ اعلیٰ عدلیہ نے سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد، وکلاء کے طرز عمل کا نوٹس لیا، نہ صرف اس نظریے کو تقویت دیتا ہے بلکہ یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ خود کو وکلاء کا یرغمال تصور نہیں کرتی-

گو کہ یہ ایک خوش آئند پیشرفت ہے تاہم 1973 کے ایکٹ کا ازسرنو جائزہ لینا، خصوصاً پروفیشنل کنڈکٹ کے حوالے سے، اتنا سیدھا سادہ معاملہ بھی نہیں-

اس حوالے سے بنیادی تشویش یہ ہے کہ اگر اس جائزے کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ، بار کونسلوں کے بجائے نچلی عدالتوں کو اس بات کا اختیار دے دیتی ہے کہ وہ وکلاء کے خلاف انضباطی کاروائی کریں اور اگر ضروری سمجھیں تو ان کا لائسنس بھی منسوخ کر دیں تو اسے بار کو بینچ کے ماتحت کرنے کے مترادف سمجھا جائے گا بجائے اس کے کہ وہ پیشے کے ایک خودمختار ستون کی حیثیت سے کام جاری رکھیں-

سوال اٹھتا ہے کہ یہ اہم کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بار کی آزادی اور خودمختاری بھی کسی قانونی نظام کے صحیح کام کرنے کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنی عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری- ایک وکیل کو عدالت میں بنا کسی خوف اور پراعتماد ہو کر پیش ہونا چاہئے-

یہ تبھی ممکن ہے جب وہ عدالتوں کی جانب سے تادیبی کاروائی سے محفوظ رہیں، سوائے توہین عدالت کے معاملات کے-

اسی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے بار کونسلز قائم کی گئیں تا کہ وہ ایک خودمختار پیشہ ور ریگولیٹری باڈی کے طور پر کام کر سکیں جو عدلیہ اور انتظامیہ، دونوں کے اثرورسوخ سے آزاد ہوں-

پاکستان کے قانونی نظام کا المیہ بار کونسلوں کا اپنے دستوری مینڈیٹ کے تحت کام کرنے میں ناکامی ہے اور بجائے اس کے کہ انہیں اس بات کا احساس ہوتا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے پیشہ ورانہ معیار کو قائم رکھا جائے انہیں نے اپنی توجہ ہڑتالیں کرنے پر مرکوز کئے رکھی-

تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سپریم کورٹ قانون کے پیشے کی عزت اور ساکھ بچانے کیلئے کچھ نہیں کر سکتی- اس کا سادہ مطلب بس یہ ہے کہ سپریم کورٹ کوئی ایسی سرجیکل اسٹرائیک نہیں کر سکتی جس کا مقصد صرف نظم و ضبط پر مرکوز ہو-

اسے اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ وکلاء کا یہ خراب طرز عمل ایک بڑی بیماری کی نشانیوں میں سے سے ہے، جس میں پیشہ ورانہ اور نصابی قانونی تعلیم کا گرتا معیار اور وہ لاپرواہ معیار شامل ہے جس میں صرف انتخابات کے لئے زیادہ سے زیادہ ووٹ اکھٹا کرنے کے مقصد شامل ہے بجائے اس کے کہ معیاری وکیل بنائے جائیں-

لہٰذا سپریم کورٹ کو تین طرفہ اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں تعلیم، انرولمنٹ اور نظم و ضبط کے معیار کو مدنظر رکھا جائے- اور اسے خاص طور پر یہ سب کچھ اتنی صفائی اور نزاکت سے کرنے کی ضرورت ہے جس سے بار کے وقار، آزادی اور خودمختاری کو نہ صرف برقرار رکھا جا سکے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو بجائے اس کے کہ مصلحت میں اس کی قربانی دے دی جائے-

انگلش میں پڑھیں

لکھاری ایک بیرسٹر ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

امبر ڈار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔