پاکستان

’طالبان نے ہائی پروفائل شخصیات کی رہائی کا اشارہ دیا ہے‘

ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم نے مذاکرات کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

بنّوں: جماعت اسلامی کے رہنما اور ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ طالبان نے کچھ ہائی پروفائل شخصیات کو خیر سگالی کے طور پر رہا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

جماعت اسلامی کے کارکنوں کے تربیتی سیشن کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ابراہیم نے علی موسٰی گیلانی، شہباز تاثیر اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر اجمل خان کی رہائی کو مسترد نہیں کیا۔

انہوں نے حکومت اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے جاری مذاکرات پر پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے مؤقف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ یہ سیاسی جماعتیں اس عمل کو کامیابی سے ہمکنار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی ہیں، تاکہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے راہ ہموار ہوسکے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ جماعتیں قبائلی علاقوں میں طاقت کے استعمال سے مسائل حل کرنے کی وکالت کررہی ہیں، اگرچہ اس طرح کی کارروائیاں ماضی میں بے اثر ثابت ہوئی تھیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا کہ ’’محبّ وطن جماعتیں‘‘ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ عمل اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ مذاکرات امن کی بحالی میں مدد دیں گے، اور بالآخر اس طرح ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ حکومت اور طالبان شوریٰ دونوں ہی مذاکرات کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

ٹی ٹی کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے دعویٰ کیا کہ بہت سے لوگ طالبان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ آئین کو قبول نہیں کرتے، جبکہ وہ خود کئی مرتبہ آئین کی خلاف ورزی کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1973ء کا آئین 33 معروف مذہبی علماء کی کوششوں کا ثمر تھا۔

ان کا مزید کہنا تھاکہ ایک طاقتور لابی اس معاملے پر الجھن پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ اگر حکمران طبقہ آئین کی پاسداری کے لیے تیار ہے تو جماعت اسلامی طالبان کو آئین کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگر آئین کی حقیقی روح کا نفاذ کردیا جائے تو ٹی وی چینلز پر ان کے خیال میں فحاشی کو روکا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں امن قائم تھا، لیکن امریکا میں نائن الیون کے حملوں کے بعد سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے صورتحال تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے جنرل مشرف کو ملک میں غیر یقینی صورتحال اور سیکورٹی کے مسئلے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال طوالت اس لیے اختیار کرتی گئی کہ سابق صدر آصف زرداری نے اپنے پیشرو کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ طاقت کے استعمال سے امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔