نقطہ نظر

پھر پٹڑی سے اترگئے

ہندوستان سے تجارتی معاہدہ نہ ہونے کی حقیقت فوج کی مخالفت، تردید کے باوجود یہی حقیقت؟

ہندوستان کے ساتھ معمول کے تعلقات، تجارت کے معمول پر آنے سے منسلک ہیں، جس کے متعلق خیال ہے کہ اسے پاکستان مسلم لیگ ۔ نون حکومت کی خارجہ پالیسی کا مرکزی حصہ ہونا چاہیے تھا۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے وزیرِ اعظم نواز شریف انتخابات سے پہلے اور بعد میں، متعدد بار دُہرا بھی چکے ہیں۔

اگر اس ضمن میں حکومت کچھ کرنے جارہی تھی، تو اس پر اتفاقِ رائے ہے، کہ پرانے حیلے بہانوں اور رکاوٹوں کو راہ سے صاف کرنے کی پہل ہندوستان کی طرف سے ہونی چاہیے۔

افسوس، ہندوستان کے ساتھ تعلقات ایک بار پھر ایسے مقام پر آپہنچے کہ جہاں حکومت، بنا کسی وضاحت کے، پالیسی رکاوٹوں کو ایک بار پھر اپنی جگہ جم جانے کی اجازت دیتی دکھائی دے رہی ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ جو ابھی گذشتہ ماہ اپنی منزل کے قریب پہچ چکا تھا، آخر ٹھہر کیوں گیا؟ حکومت نے اپنے ہی اٹھائے گئے قدم کو پیچھے ہٹانے پر وضاحتوں کی پیشکش کی ہے، جن میں سے چند قابلِ اعتماد یا خاص طور پر قابلِ یقین بھی ہیں۔

تجارتی معاہدے کے امکان اور وقت، دونوں سے متعلق یہ تصور ہی احمقانہ ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم ہندوستان کے عام انتخابات شروع ہونے کے بارے میں لاعلم تھی۔ وزیرِ تجارت خرم دستگیر کا رواں سال کے اوائل میں دورہ ہندوستان، اس کی سب سے اولین حتمی تاریخ تھی۔ لہٰذا، آخر ہوا کیا تھا؟

شاید، یہاں حکومت نے اعتراف کرلیا کہ وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کا آنا ممکن نہ رہا، اوپر سے سفارتی ناراضی اور مسترد کیے جانے کے سبب، فیصلہ کرلیا گیا کہ اب انتخابات کے انعقاد تک انتظار ہی کرلیا جائے۔ اگر یہی اصل وجہ ہے تو پھر اس سے پالیسی سازی میں بھولپن اور سادگی کا پتا چلتا ہے جو تیسری مرتبہ کے وزیراعظم کے واسطے تعجب خیز ہونی چاہیے۔

یقیناً، جواب کسی اورجگہ پوشیدہ ہونا چاہیے، اور پاکستانی تناظر میں یہ اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں کہ جواب کہیں اور، کہاں پر ہوسکتا۔ اب یا امکانی مستقبل میں، تجارتی معاہدے کے ذریعے آگے بڑھنے کے بڑے عمل کی بربادی کے ذریعے، کیا فوجی قیادت نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ حکومتی پہل کے اقدامات کی توثیق سے قاصر ہے؟

دونوں کی جانب سے، فوجی قیادت کی طرف سے ویٹو کیے جانے کی تردید کے باوجود، ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے امکانی منظر نامے میں، وزیرِ اعظم شریف کو یہاں اپنے دوسرے بڑے قدم پر فوج کی طرف سے سہولیات کی ضرورت ہے، جس کے پیشِ نظر انہوں نے ہندوستان کے محاذ پر زیادہ دباؤ نہ ڈال کر، ایک خاموش معاوضہ ادا کردیا۔

اگر ایسا ہی ہے تو پھر، ایسے وقت میں کہ جب یہ تصور ہے کہ جمہوری عمل آگے بڑھ رہا ہے اور پہلے کے مقابلے میں اب یہ کہیں زیادہ مضبوط ہوچکا، ایک سیاسی حکومت کی طرف سے اس طرح ہتھیار ڈال دینا افسوسناک ہے۔

پھر یہ کہ، لشکرِ طیبہ اور جماعت الدعوۃ کی طرف سے اس برس تئیس مارچ کو پنجاب میں طاقت کے بھرپور اظہار سے بھی بڑا، مربوط، بے مثال اور زیادہ تعجب خیز اظہار، یہی ہے۔

اگر فوج کی مخالفت کے پیشِ نظر، پاکستان مسلم لیگ ۔ نون ہندوستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کے اپنے ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھاسکتی تو پھر یہ کس طرح اور کیوں کر، ایسی تنظیموں کو اجازت دے سکتی ہے کہ وہ یومِ پاکستان کے موقع پر ہندوستان مخالف اپنے ایجنڈے کو یوں دیدہ دلیری سے آگے بڑھاسکیں؟

پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کی پالیسی میں مفلوج ہونے کے پہلے ہی واضح آثار ہیں جو اسے خطرناک طریقے سے، مکمل گڑبڑ کی طرف گھسیٹے چلے جارہے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں

ڈان اخبار