پاکستان

طالبان کے مطالبات سے امن مذاکرات تعطل کا شکار

مذاکرات میں شامل ایک اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک فوری فیصلے نہیں ہوں گے جنگ بندی کا برقرار رہنا مشکل ہو گا۔

پشاور: حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کی جانب سے مثبت پیش رفت کی امیدوں کے باوجود بات چیت میں شامل اندرونی ذرائع کا خیال ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں اور جب تک کچھ فوری فیصلے نہیں کیے جاتے جنگ بندی کو قائم رکھنا مشکل ہو گا جس کی مدت پیر 31 مارچ کے روز ختم ہوجائے گی۔

ایک اندرونی ذرائع کے مطابق شدت پسندوں نے امن مذاکرات کو آگئے بڑھانے کے لیے دو شرائط رکھی ہیں جس میں پہلی پہاڑ شکتوئی کے علاقے کو امن زون ننانے کے علاوہ شمالی وزیرستان میں آزاد تحریک کی اجازت، جبکہ دوسری شرط غیر عسکری قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔

مذاکرات میں شامل ایک اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ طالبان کمیٹی کے پانچ اراکین ایک مہینے کی جنگ بندی میں توسیع سے پہلے ایک تحریری ضمانت کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً سات گھنٹے تک جاری رکھنے والی ملاقات میں ہم نے ایک طویل عرصے سے جاری پُرتشدد حملوں پر تبادلۂ خیال کیا جس نے جانی و مالی نقصان کے علاوہ لوگوں کو نقل مکانی کرنے پر بھی مجبور کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان سے کہا 'جو ہوا سو ہوا اب تمام الجھنوں کو ختم کرکے ایک نئی شروعات کرتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ ' میں ایک مرتبہ پھر مایوس ہوا ہوں اور مسلسل کامیابی کے امکانات روشن نہیں ہیں'۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'ہم کوئی بھی تحریری ضمانت پیش نہیں کرسکتے اور یہ ہمارا مینڈیٹ نہیں ہے، لہٰذا ہم کسی وعدے کے بغیر واپس آئے چاہیے جنگ بندی میں توسیع ہو یا غیر عسکری قیدیوں کی رہائی'۔

'شدت پسندوں نے امن مذاکرات کو آگئے بڑھانے اور جنگ بندی میں توسیع کے معاملے کو اپنے مطالبات کی قبولیت سے باندھ دیا ہے۔'انہوں نے اس صورتحال کو ایک تعطل قرار دیا اور مزید کہا کہ اب اس کا انحصار وفاقی حکومت کے جواب پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں نے 250 غیر عسکری قیدیوں کی فہرست فراہم کی ہے جن میں خواتین، بچے اور بزرگ افراد بھی شامل ہیں۔خیال رہے کہ پاک فوج پہلے ہی خواتین اور بچوں کی حراست کے الزام کو مسترد کرچکی ہے۔

اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ ہم نے ان سے کہا کہ ہم اس معاملے کی تفیش کریں گے۔

اس کے علاوہ طالبان کمیٹی کو حکومتی کمیٹی کی جانب سے کچھ سات سو افراد کی ممکنہ رہائی کی فہرست فراہم کردی گئی ہے۔

ان کہنا تھا کہ طالبان قیادت کے رہنماؤں نے ایک غیر فوج امن زون بنانے کی یقین دہانی کی بات کی ہے تاکہ وہ آس پاس آزادی سے آنے جانا کرسکیں۔

انہوں نے انہیں مذاکرات کے مقام بلند خیل کا فیصلہ کرنے کے لیے دو روز لگے۔

شدت پسندوں کا اسرار ہے کہ جنگ بندی یک طرفہ ہے اور حکومت نے ان کے مطالبات کو نظرانداز کیا ہے۔

'وہ ایک فہرست لے کر آئے تھے جس میں اس بات کر ذکر تھا کہ کتنی مرتبہ مہمند، باجوڑ، کراچی اور دیگر جگہوں پر سیکیورٹی فورسز نے چھاپا مار کارروائی کی ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کو اٹھانے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔


ریسکیو ایکٹ:


جب اس اندرونی ذرائع سے سوال کیا گیا کہ اس صورتحال کو بہتر کیسے بنایا جائے گا تو ان کا کہنا تھا کہ اعتماد کی بحالی کے لیے کچھ غیر عسکری قیدی رہا کرنا ہوں گے۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا شدت پسند پشاور یونیورسٹی کے وائس کنٹرولر پروفیسر اجمل خان، مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کی بازیابی کے لیے رضامند ہوگئے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ معاملہ ان کے سامنے رکھا اور سوال کیا کہ کیا وہ انہیں رہا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اعتماد کی بحالی کے لیے حکومت کا بھی قیدیوں کو رہا کرنا ضروری ہے۔

طالبان اپنے تین جنگجوں کے بدلے میں اجمل خان کو رہا کرسکتے ہیں، جنہوں ان ہی کے اغوا کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آیا کب تک مذاکرات بحال ہوں گے تو ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا انحصار حکومت کی جانب سے ان کے مطالبات کی قبولیت پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایسا جنگ بندی کی مدت ختم ہونے سے قبل ہوجاتا ہے تو ممکن ہے مذاکرات ایف آر بنوں کے علاقے بکہ خیل میں ہوں جس کو امن زون میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔

اندرونی ذرائع نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین کے درمیان پہلی ملاقات میں اعتماد سازی کو بحال کرنے کی ضرورت تھی، لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی جس اس وقت ہوگی جب میں اہم مسائل پر بات کریں گے۔