طالبانائزیشن کے خلاف جنگ
کہتے ہیں کہ وہ واحد چیز جو یقینی ہے وہ ہے تبدیلی- اور جبکہ ہم ایک غیر یقینی مستقبل کی جانب دیکھتے ہیں تو ہمیں چند نمایاں ٹرینڈ دکھتے ہیں- پھر ہم ان طاقتوں پر نظر ڈالتے ہیں جو ان ٹرینڈز کو چلا رہی ہیں اور ایک پیٹرن نمایاں ہونا شروع ہوتا ہے- یہ مناظر، مستقبل کی دھندلاہٹ کو کم کرتے ہیں- ہمیں جو دکھائی دیتا ہے وہ کچھ ایسا ہے-
پاکستان کو ایک طویل جنگ کا سامنا ہے اور یہ جنگ ایسی نہیں جس میں ایک فاتح اور ایک مفتوح کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہو جائے-
پاکستان ایک عقیدے سے جنگ لڑ رہا ہے- یہ جنگ طالبان کے خلاف اتنی نہیں جتنی یہ معاشرے کی طالبانائزیشن کے خلاف ہے -- تحریک طالبان پاکستان، جس اسپکٹرم کے صرف انتہائی سرے کی نمائندہ ہے-
دائیں بازو کا موقف اور داستان دن بدن مضحکہ خیز ہوتی جاری ہے- جھوٹی دلیلیں، کہ یہ 'امریکہ کی جنگ' ہے، ڈرون حملے انتہا پسندی کی بڑی وجہ ہیں اور طالبان تو 'ہمارے بھٹکے ہوئے بھائی' ہیں، کی وجہ سے یہ غلط تاثر پیدا ہوا کہ نیٹو سپلائی کو بلاک کیا جائے اور طالبان سے مذاکرات کئے جائیں وغیرہ- اس داستان کو تو یہ خطرہ آن پڑا ہے کہ اسے دیوانے کی بڑ نہ قرار دے دیا جائے-
یہ فیصلہ کرنا ویسے خاصا مشکل ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے طالبان کو کرکٹ میچ کھیلنے کی دعوت دینا زیادہ اشتعال انگیز ہے یا پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین، عمران خان کی جانب سے یہ تجویز کرنا کہ طالبان کی اکثریت 'امن پسند' ہے لہٰذا ٹی ٹی پی کو پشاور میں ایک آفس کھولنے کی اجازت دی جائے-
نسبتاً زیادہ لبرل پارٹیاں اور واضح سوچ کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور انہیں اس بات کا بھی احساس ہو رہا ہے کہ ان کی کہانی کو ان کے ضمیر کی آواز ہونا چاہئے- امید کرنی چاہئے کہ وہ اس پہئیے کو اپنے مفاد میں چلتی رہیں گی-
پانسوں کی طرح کھڑی، دائیں بازو کی جماعتیں اس مشکل میں ہیں کہ کیسے اپنے اس موقف اور اسٹانس سے پیچھے ہٹیں جس پر وہ ایک عرصے سے ڈٹی ہوئی ہیں- اور آخرکار جب وہ ایسا کرنا بھی چاہیں تو بھی وہ اپنے آپ کو ایک ایسے زون میں پاتی ہیں جہاں وہ لبرل پارٹیوں کے موقف کی حمایت کرتی نظر آئیں گی جو کہ یقیناً ان کے لئے پسندیدہ نہ ہو گا اور اوپر سے اس کے باوجود، لبرل پارٹیوں کا موقف زیادہ اصلی مانا جائے گا جس میں ایک خاص طرح کی نفاست بھی ہے-لو سے میڈیم سطح کا ایک مسلسل تنازعہ دکھائی دیتا ہے- یہ اس کیفیت سے گزر رہا ہے جس میں مذاکرات، جنگ، مذاکرات، جنگ کا سیکوئنس چل رہا ہو-
ٹی ٹی پی ہر حال میں ملٹری ٹارگٹس کو نشانہ بنائیں گے- ان کی تربیت القاعدہ کے اس پروپیگینڈے پر ہوئی ہے جس کے خالقوں میں ابو یحییٰ اللبی جیسے افراد شامل ہیں- اللبی، القاعدہ کے وہ چیف انفارمیشن آفیسر جو ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے لیکن اپنی ہلاکت سے پہلے انہوں نے ٹی ٹی پی کے حالیہ سربراہ ملّا فضل اللہ کی بھی تربیت کی تھی اور اس تربیت میں یہ بات خاص طور پر سکھائی گئی تھی کہ ملٹری ٹارگٹس کو نشانہ بنا کر کیسے عسکریت پسندوں میں عزت بھی بنائی جائے اور دائیں بازو کی شہری آبادی کو بھی خود سے علیحدہ نہ کیا جائے- جب کبھی سول قیادت کو کوئی سخت پیغام بھیجنا ہو تبھی شہری یا سیاسی ٹارگٹس کو نشانہ بنایا جائے-
'چوہے بلی' کا یہ کھیل، بنا کسی واضح نتیجے کے جاری رہے گا- جنگ کے سیزن کے خاتمے یا خود کو خطرات میں پا کر، ٹی ٹی پی کے جنگجو، افغانستان فرار ہوتے رہیں گے- دوسرے جنگجو، میدانی علاقوں اور دوسرے شہری علاقوں میں خود کو چھپا لیں گے جہاں وہ کچھ عرصے کے لئے خود کو نمایاں نہیں کریں گے- اس طرح، ٹی ٹی پی ایک مسلسل خطرہ اور چیلنج بن جائے گی- اس کے کچھ دھڑے ریاست اور ملٹری کو تباہ کرنے کے درپے ہیں، کچھ اس کے لئے بریک ڈاؤن کا سہارا لیتے ہیں اور کچھ تو ریاست پر قبضہ کرنے کے خواہاں ہیں، جن میں ٹی ٹی پی مہمند کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے- بہت ممکن ہے کے ان دھڑوں میں مزید دھڑے بندیاں ہو جائیں- دوسری جانب، اپنے طور پر فوج پہلے ہی اپنے جدید طریقوں اور ٹیکنولوجی کا مظاہرہ کر چکی ہے اور ہم امید کر سکتے ہیں کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں نگرانی اور نشانہ بنانے کے حوالے سے مزید بہتری دیکھنے میں آئے-
دائیں بازو اور مذہبی قوتیں، طالبان کے خطرے کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہی ہیں اور انہوں نے نہایت چالاکی سے خود کو مذاکراتی عمل ملوث کر لیا ہے- یہ وہ پوزیشن ہے جس میں وہ زیادہ طاقت حاصل کر سکتی ہیں اور ایک محصور ریاست سے اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کر سکتی ہیں- جہاں ایک طرف طالبان، ہمارے سروں پر بندوق تانے ہوئے ہیں وہیں اسلامی نظریاتی کونسل نے حال ہی میں ہم پر ایک سے زائد شادیوں اور بچپنے کی شادیوں کے حوالے سے قوانین تبدیل کرنے کیلئے دباؤ ڈالا ہے-
اس صورتحال نے لبرل جماعتوں کو یہ نادر موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ایک سمجھداری اور آسانی پر منبی موقف کا استعمال کر کے ان لوگوں کی حمایت واپس حاصل کر سکیں جنہیں دائیں بازو نے ان سے چھین لیا ہے- لبرل پارٹیوں کی جانب سے ایسی کسی بھی کوشش کو طالبان، تشدد سے دھمکائیں گے جیسا کہ پچھلے سال انہوں نے عام انتخابات کے موقع پر کیا جب انہوں نے ایسی جماعتوں کو کھل کر اپنی انتحابی ریلیاں یا جلسے کرنے سے روکا-
پاکستان، القاعدہ کے اس بڑے محاذ جنگ کا حصہ رہے گا جس میں افغانستان، عراق، شام، یمن، شمالی افریقہ اور وسطی ایشیا کے کچھ حصے شامل ہیں- طالبان، پاکستان میں اس کی 'فرنچائز' ہونے کے تمام فائدے اٹھاتے رہیں گے جبکہ انہیں افغانستان کے پشتون علاقوں میں بھی مطلوبہ 'اسٹریٹجک گہرائی' ملتی رہے گی- ہو سکتا ہے کہ یہ ماڈل بہت سادہ ہو لیکن ایسا ضرور ہے جسے بلڈنگ بلاکس کی طرح استعمال کرتے ہوئے ایک وسیع منظرنامہ تشکیل دیا جا سکے- یہ منظرنامے ہمیں آنے والے چیزوں اور حالات کو سمجھنے میں مدد فراہم کریں گے اور اس حالات کے تدارک اور سدباب کے لئے ممکنہ حکمت عملی وضع کرنے میں بھی مدد دیں-
لکھاری ایک اسٹریٹجسٹ اور انٹرپرینیور ہیں-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
لکھاری کتاب Putting Pakistan Right: Standpoints on the War on Terror, Energy, Transit Corridors & Economic Development کے مصنف ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس moazzamhusain@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔