دنیا

رہا ہونے والے افغان طالبان سے ہمارا رابطہ نہیں: افغان امن کونسل

افغان امن کونسل کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قید تمام افغان طالبان کو افغان حکام کی تحویل میں دے دیا جائے۔

کابل: جمعہ کو ایک افغان اہلکار نے بتایا کہ افغانستان کی اعلٰی سطحی کونسل، جس کی تشکیل طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی نگرانی کے لیے ہوئی تھی، اس نے ہمسایہ ملک پاکستان میں رہا ہونے والے چھیالیس طالبان قیدیوں کے ساتھ کوئی باضابطہ ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ حالانکہ جب وہ رہا کیے گئے تھے ان کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔

پاکستان نے کابل کی درخواست پر 2012ء میں افغان طالبان کے ایک مختصر گروہ کو رہا کرنا شروع کیا تھا۔ کابل ان لوگوں کو باغیوں کے خلاف امن مذاکرات کے سلسلے میں بطور ثالث استعمال کرنا چاہتا تھا۔ جیسے جیسے نیٹو افواج کے انخلاء کا وقت قریب آرہا ہے اور ملک میں پانچ اپریل کے الیکشن کی تیاریاں عروج پر ہیں، ان باغیوں نے اپنے حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔

افغان حکام چاہتے تھے کہ ان قیدیوں کی رہائی کے وقت ان کا ایک وفد وہاں موجود ہو۔ لیکن انہوں نے شکایت کی کہ پاکستان نے ان قیدیوں کی رہائی سے پہلے انہیں مطلع نہیں کیا، جس سے اس جنگ کے خاتمے میں مدد دینے کے حوالے سے پاکستان کی سنجیدگی پر سوال اُٹھتے ہیں۔

طویل عرصےسے افغانستان، پاکستان پر الزام عائد کرتا آیا ہے، جبکہ خود پاکستان کو بھی طالبان کی بغاوت کا سامنا ہے، پاکستانی طالبان کو سخت گیر افغان طالبان کی پشت پناہی حاصل ہے، جو 1996ء سے 2001ء تک افغانستان پر حکمرانی کرچکے ہیں اور اب غیرملکی فوجوں کو بے دخل کرکے ایک اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش کررہے ہیں۔

افغان طالبان نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا کی جانب سے انتخابات میں ہیرا پھیری کی جارہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جو کوئی بھی اس میں حصہ لے گا اس پر حملہ کیا جائے گا۔

مذکورہ افغان کونسل کے اعلی سطح کے ایک رکن نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ تمام قیدیوں کو افغان حکام کی تحویل میں دے دیا جائے۔‘‘

اس ڈر سے کہ جاری مذاکرات خطرے میں نہ پڑ جائیں، انہوں نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر کہا کہ ’’افغان امن کونسل کے اراکین کو ایک موقع دینا چاہیٔے کہ وہ ان کے ساتھ ملاقات کرسکیں اور انہیں بتاسکیں کہ ہم آپ کی رہائی کا ایک عرصے سے مطالبہ کررہے تھے اور ہماری درخواست پر ہی آپ کو رہا کیا گیا ہے۔افغانستان میں امن و استحکام لانے کے لیے بہتر ہوگا کہ آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ جبکہ پاکستان نے اس کے بجائے ان افغان لوگوں کو رہا کرنے کے بعد صرف مطلع کیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ آزاد ہونے والے تقریباً پندرہ سے چھیالیس قیدیوں سے افغان کونسل نے ثالثوں کے ذریعے غیررسمی رابطہ استوار کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ان کے ساتھ براہِ راست ملاقات نہیں ہوسکی۔ تقریباً تمام پاکستان میں ہی ہیں۔ کونسل کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہے کہ یہ رہا ہونے والے قید اب کہاں ہے، لیکن ایک خیال ہے کہ یہ سب پاکستان میں ہی ہیں۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نے کم ازکم ایک ملاقات کا اہتمام کیا تھا، لیکن ہوسکتا ہے کہ رہا ہونے والے دیگر قیدی افغان حکام سے ملاقات کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔

دفترخارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا کہ ’’کچھ لوگ افغان حکام کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار نہ تھے۔ ہمارا مؤقف اب بھی وہی ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو افغانستان اور اعلٰی امن کونسل کی درخواست پر رہا کیا تھا۔ ہم نے ان کے ساتھ ملاقات کی سہولت بھی فراہم کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم آئندہ بھی ایسا کرتے رہیں گے۔ تاہم پاکستان کی سنجیدگی کے متعلق شکوک شبہات پیدا کرنا مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ نومبر میں ہم نے کونسل کے ایک وفد کی ملّا عبدلغنی برادر کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ ملا برادر سابقہ طالبان حکومت کا دوسرا اہم رہنماتھے، جنہیں سات سال قبل کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

پاکستان نے ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ اس نے ملا برادر کو رہا کردیا ہے، لیکن افغان کونسل کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں گھر میں نظربند ہیں اور انہیں رہا کیے گئے قیدیوں کی فہرست میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔

کونسل کے عہدے دار نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی سے اب تک طالبان کے اعتماد میں ہی اضافہ ہوا ہے۔

لیکن جب سوال کیا گیا کہ رہا ہونے والوں میں سے کوئی ایک امن عمل میں شامل ہوا تو انہوں نے سادگی سے کہا کہ ’’نہیں، انہیں ہمارے حوالے نہیں کیا گیا، ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہیں۔