غداری کیس: مشرف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری
اسلام آباد: پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت میں عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے انہیں 31 مارچ کو طلب کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ عدالت نے بدھ کے روز ہونے والی سماعت میں پرویز مشرف کو جمعہ کے روز عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کررکھا تھا۔
تاہم آج کی سماعت میں بھی پرویز مشرف پیش نہ ہوسکے۔
اس سے قبل عدالت نے مشرف کی حاضری سے متعلق فیصلہ محفظ کرلیا تھا۔
آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ کی سماعت جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں قائم خصوصی عدالت کا تین رکنی بینچ کررہا ہے۔
جمعہ کی صبح جب سماعت شروع ہوئی تو سابق صدر کے وکیل انور منصور نے مشرف کی حاضری سے استثنیٰ کے لیے عدالت سے درخواست کی۔
انہوں نے عدالت سے کہا کہ اس مرتبہ سیکیورٹی خطرات کی نوعیت کافی سنجیدہ ہے، لہٰذا ان کے مؤکل کو استثنیٰ دیا جائے۔
بیچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کو تیس منٹ میں بتایا جائے کہ مشرف آج عدالت میں پیش ہورہے ہیں یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ آج بھی پیش نہیں ہوتے تو فردِ جرم ان کے وکیل کو پڑھ کر سنا دی جائے گی۔
سماعت کے دوران استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ اس مقدمے کی کارروائی پر اب تک بس کروڑ روپے کے اخراجات آچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشرف کا عدالت میں پیش نہ ہونا عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔
اکرم شیخ نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ مشرف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کیے جائیں۔
اگر آج کی سماعت میں پرویز مشرف پیش ہوجاتے ہیں تو امکان ہے کہ عدالت ان پر فردِ جرم عائد کردے گی۔
سیکیورٹی انتظامات
سماعت کے دوران اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع نیشنل لائبریری میں قائم اس خصوصی عدالت سے لے کر راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے روٹ پر تقریباً دو ہزار پانچ سو اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
سماعت سے قبل ہی پولیس کی بھاری نفرری راولپنڈی کے اے ایف آئی سی ہسپتال پہنچ گئی جہاں پر سابق صدر زیرِ علاج ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران پرویز مشرف کی جان کو لاحق خطرات کے حوالے سے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کی جانب سے عدالت کو بریفنگ دی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق آئی ایس آئی کے لفٹیننٹ کرنل نے جعمرات کو ایک اِن کیمرہ بریفنگ میں بتایا کہ مشرف پرویز گزشتہ سال مارچ میں جب پاکستان آئے تھے اس وقت سے انہیں درجنوں شدت پسند گروپس کی طرف سے سنگین نوعیت کے خطرات کا سامنا ہے، جن میں القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان بھی شامل ہیں۔