نظریاتی کونسل کی فرسودہ سوچ
یہ ایک ایسا اعلان تھا جسے سن کربہت سے لوگ دنگ رہ گئے۔ اطلاعات کے مطابق منگل کو اسلامی نظریاتی کونسل نے، پاکستان میں کم عمری کی شادی روکنے کے قانون کو 'غیراسلامی' قرار دے دیا۔ قبل ازیں، کونسل کے چیئرمین مولانا محمّد خان شیرانی نے پیر کو یہ چونکا دینے والا بیان دیا تھا کہ دوسری شادی کے خواہشمند شوہر کو بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، لہٰذا اس ضمن میں، موجودہ قانون میں ترمیم کی جانی چاہیے۔
اس بیان سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس وقت علما کی ترجیحاتی فہرست میں کیا کچھ شامل ہے اور ملک میں مذہبی مباحث پر تاریک دور کی دقیانوسی ذہنیت سوار ہے۔ آئیں، واضح کرتے ہیں:
کم عمری کی شادی ایک لعنت ہے جو خاص طور پر بچیوں سے ان کا بچپن اور معصومیت چھین لیتی ہے۔ اگر مشاورتی ادارے کی حیثیت میں ایک عالمِ دین اس طرح کا بیان دے تو یہ بات، انسانی حقوق کے ضمن میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں انہیں پسِ پشت ڈال کر، صرف پاکستان کو ایک الگ تھلگ قوم بنانے کی خدمت ہی سرانجام دے گی۔
پاکستان، بچوں کے لیے بہت زیادہ غیر دوستانہ ماحول کا حامل مقام ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو بچوں سے مزدوری اور ان پر روا تشدد کو برداشت کرلیتا ہے، جہاں روایتی طور پر تنازعات نمٹانے کے لیے بچیوں کی لین دین کی جاتی ہے۔ اس پس منظر میں نظریاتی کونسل کے اعلامیہ سے نہایت غلط پیغامات گئے ہیں۔ درحقیقت کونسل کی ترجیحات باہم گڈ مڈ ہوچکی ہیں۔
بجائے اس کے کہ کونسل روشن خیالی کے فروغ کی خاطر کام کرتی، وہ بدستور فرسودہ سوچ کو مستحکم کیے جارہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان جن میں درحقیقت زیادہ بڑی تعداد علما کی ہے، ترجیحات پر توجہ مرکوز کرنے سے کیوں شرمارہے ہیں؟
اس وقت پاکستان کو جن بڑے مسائل کا سامنا ہے، ان میں علما کی اس انتہائی فرسودہ سوچ کا اہم کردار ہے ، جس نے معاشرے میں جڑیں گاڑ کر اسے شدت پسندی کی طرف دھکیلا۔ اس وقت پاکستان جن سنگین مسائل سے نبرد آزما ہے اور ملک کا سماجی تانا بانا جس خطرے سے دوچار ہے، علماء اس سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر دہشت گردی کی مذمت انتہائی دل گرفتہ عالم میں کی جاتی ہے۔ بڑھتی فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے کوششیں تو کی گئی ہیں لیکن مساجد و مدارس کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پیغام دینے اور مذہبی فسادات برپا کرنے والوں کو لگام دینے کے لیے، اسلامی نظریاتی کونسل سمیت انہوں نے کچھ قابلِ ذکر خدمات انجام نہیں دی ہیں۔
جتنی شدت سے علما نے کم عمری کی شادی اور مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کے معاملے کو اٹھایا، شاید ہی انہوں نے کبھی پاکستانی معاشرے میں خواتین اور بچوں پر تشدد، جو کہ اکثر 'مذہب' اور 'ثقافت' کے نام ہوتا ہے، کی مذمت اتنی شدت کے ساتھ کی ہو۔
سب سے بہتر تو یہی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے جو 'مشورہ' دیا، اسے نظر اندازکردیا جائے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی دلیل دے چکے کہ ایک ایسی منتخب پارلیمنٹ، جس کے اندر مختلف فکر کی حامل سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ خود دینی جماعتوں کی بھی نمائندگی موجود ہے، ایسے میں کونسل کی کچھ خاص افادیت نہیں رہ جاتی، یہ کام پارلیمنٹ کو سونپ دینا چاہیے۔
اگر اسلامی نظریاتی کونسل کے 'مشوروں' کا معیار یہ ہے تو پھر بہتر یہی ہوگا کہ اسے تحلیل کردیا جائے۔
دریں اثنا، جیسا کہ انسانی حقوق کے حامی، قدامت پسند دقیانوسی سوچ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں، اسی طرح سیاستدانوں کو بھی کھل کر دقیانوسی سوچ کے فروغ کی خاطر کام کرنے والی قوتوں کے سامنے کھڑے معاشرے کے ساتھ، کھڑا ہوجانا چاہیے۔