پاکستان

’کیلاش کو دھمکی دینے کے لیے طالبان کی دراندازی ناممکن‘

سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے جواب میں خیبر پختونخوا کی حکومت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس علاقے میں سیکیورٹی سخت ہے۔

اسلام آباد: خیبر پختونخوا کی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ افغانستان کے صوبے نورستان سے پاکستانی علاقے میں طالبان کی کسی قسم کی دراندازی ممکن نہیں، اور یہ ناممکن ہے کہ وہ چترال میں کیلاش قبائل کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرسکیں، اس لیے کہ پاکستانی فوج کا سرحد پر باقاعدہ گشت جا ری رہتا ہے۔

بیس فروری کو سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے جواب میں خیبر پختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالطیف یوسف زئی نے دو صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جمع کرائی، جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں اراندو سے لٹکوہ کے علاقے میں سولہ چوکیوں کے ذریعے کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی کارروائی کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے علاوہ نورستان کے ساتھ سرحد پر برفباری کی وجہ سے راستے بند ہیں اور وہاں تک رسائی ناممکن ہے۔

اکیس فروری کو مالاکنڈ کے کمشنر نے چترال ڈسٹرکٹ کا دورہ کیا تھا اور وادیٔ بمبرٹ میں کیلاش برادری کے ساتھ ایک میٹنگ بھی کی تھی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان کے جانب سے اس طرح کی دھمکی نئی نہیں ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ وڈیو کلپ جس میں کیلاش قبائل کو اسلام قبول کرنے کے لیے دھمکی دی گئی ہے، اور جس کا مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں حوالہ دیا جارہا ہے، اس کو چترال کے لوگوں میں تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔

انتظامیہ اور فوج نے علاقے میں سیکیورٹی کے اضافے کے لیے اقدامات کیے تھے۔بائیس فروری کو 17 ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ جنرل جاوید بخاری نے وادیٔ کیلاش کا دورہ کیا تھا اور سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج کا ایک یونٹ اے کے-42 رجمنٹ بھی اس علاقے میں بھیجی گئی تھی۔

اس کے علاوہ پولیس کی ایک اور پلٹن بمبرٹ پہنچ گئی ہے، پچپن پولیس اہلکاروں کو تعینات تھے، پندرہ اہلکاروں کی ایک خصوصی فورس اور اسی تعداد میں سرحدی پولیس کا اضافہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’اس سے چترال کے عوام خصوصاً کیلاش اور اسماعیلی برادری کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔‘‘

اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبان کی دھمکی کے بارے میں خبر پرانی تھی، اور میڈیا کے کچھ حصوں نے اپنے مفاد کے لیے اسے نئے سرے سے تیار کیا تھا۔

بائیس فروری کو مالاکنڈ کے کمشنر نے گورنر چترال کے کاٹیج پر ضلعی انتظامیہ کے حکام کی موجودگی میں اسماعیلی برادری کے لوگوں سے ملاقات کی تھی۔ برادری کے لوگوں نے شکایت کی تھی کہ مقامی ایف ایم ریڈیو چینل پر اشتعال انگیز تقریریں نشر کی جارہی ہیں۔

یہ بھی انکشاف ہوا تھا کہ یہ ایک مذہبی چینل تھا، جس کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اجازت دی تھی۔

پھر بھی اس چینل کے مالک کو انتظامیہ کی طرف سے طلب کیا گیا اور چینل پر براہ راست نشریات پر تبادلۂ خیال کرنے پر خبردار کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کو صرف ریکارڈ کیے گئے پروگراموں کو نشر کرنے کی اجازت دی گئی تھی، اور انتظامیہ کی کافی چھان بین کے بعد اس کو یہ اجازت ملی تھی۔

یہ کارروائی چترال میں فرقہ وارانہ مسائل کو روکنے اور مختلف فرقوں اور اقلیتوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کی گئی۔

معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں انتظامیہ پیمرا سے ریڈیو لائسنس منسوخ کرنے کی درخواست کرے گی۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چترال میں کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ موجود نہیں تھا، اور تمام برادریاں بشمول کیلاش اور اسماعیلیوں کے سب ہی مکمل ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔

جبکہ سپریم کورٹ نے یہ ازخود نوٹس آئین کے آرٹیکل نو جو فرد کے تحفظ سے متعلق ہے، آرٹیکل بیس جو مذہبی آزادی اور مذہبی اداروں کو منظم کرنے سے متعلق ہے اور آرٹیکل چھتیس جو اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق ہے، کی روشنی میں لیا تھا، جو عقیدے کی تبدیلی کے لیے دی جانے والی کسی بھی قسم کی دھمکیوں کے خلاف ہیں۔